Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 52
فَتَرَى الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْهِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰۤى اَنْ تُصِیْبَنَا دَآئِرَةٌ١ؕ فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰى مَاۤ اَسَرُّوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِیْنَؕ
فَتَرَى : پس تو دیکھے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل مَّرَضٌ : روگ يُّسَارِعُوْنَ : دوڑتے ہیں فِيْهِمْ : ان میں (ان کی طرف) يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں نَخْشٰٓى : ہمیں ڈر ہے اَنْ : کہ تُصِيْبَنَا : ہم پر (نہ آجائے دَآئِرَةٌ : گردش فَعَسَى : سو قریب ہے اللّٰهُ : اللہ اَن : کہ يَّاْتِيَ بالْفَتْحِ : لائے فتح اَوْ اَمْرٍ : یا کوئی حکم مِّنْ : سے عِنْدِهٖ : اپنے پاس فَيُصْبِحُوْا : تو رہ جائیں عَلٰي : پر مَآ : جو اَ سَرُّوْا : وہ چھپاتے تھے فِيْٓ : میں اَنْفُسِهِمْ : اپنے دل (جمع) نٰدِمِيْنَ : پچھتانے والے
پس تم دیکھو گے کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے،4 وہ دوڑ دوڑ کر جا گھستے ہیں انہی (کافروں) میں، کہتے ہیں کہ ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم پر چکر نہ پڑجائے کسی (حادثہ و) مصیبت کا، سو بعید نہیں کہ اللہ لے آئے فتح (و کامرانی مسلمانوں کے لئے) یا ظاہر فرما دے کوئی اور بات اپنے یہاں (پردہ غیب) سے، جس کے نتیجے میں ان کو ندامت (و شرمندگی) اٹھانا پڑے ان باتوں پر، جو انہوں نے چھپا رکھی ہیں اپنے دلوں میں،
137 منافقین کے منافقانہ روے کا ذکر وبیان :ـسو ارشاد فرمایا گیا کہ جن لوگوں کے دل میں بیماری ہے تم ان کو دیکھو گے کہ وہ دوڑ دوڑ کر جا کر انہی [ کافر ] لوگوں میں گرتے اور گھستے ہیں اور بیماری سے یہاں پر مراد ہے شک و ریب اور نفاق کی بیماری۔ (محاسن التاویل) اور باطن کی یہ بیماری ظاہری اور جسمانی امراض سے بھی کہیں بڑھ کر مضر اور خطرناک ہے۔ سو اس مرض کے مریض اور اس خوفناک روگ کے روگی یہود جو دشمنان اسلام سے دوستی رکھتے ہیں اور ان کو اس ضمن میں جب بھی کوئی موقع ملتا ہے یہ ادھر دوڑ پڑتے ہیں۔ جیسے عبداللہ بن ابی وغیرہ منافقین کا طریقہ و وطیرہ تھا۔ (المراغی وغیرہ) ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو جب ایسے لوگوں کے دل لذت ایمان سے عاری و محروم ہیں تو ان کے سامنے دنیاوی مفادات اور مادی فوائد ہی سب کچھ ہے۔ اس لئے ایسے لوگ دوڑ دوڑ کر کفار سے جا ملتے ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ الْعَظِیْمِ مِنْ کَلِّ زَیْغ وَّ ضَلَال وَ سوء وانحراف۔ 138 منافقت خود اپنے آپ سے دھوکہ ۔ والعیاذ باللہ : ـسو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ کہیں ہم پر چکڑ نہ پڑجائے کسی حادثہ اور مصیبت کا۔ سو منافقوں کا نفاق اور ان کا اپنی چالاکی کا گھمنڈ خود ان کی محرومی کا باعث ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو منافق لوگ کھلے کافروں سے دوستی رکھتے ہیں کہ برا وقت پڑنے پر یہ لوگ ہمیں کام دیں گے۔ اس لئے ہم ان سے بگاڑتے نہیں۔ بلکہ بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ اس طرح یہ منافق لوگ اپنے آپ کو بڑا چالاک اور ہوشیار سمجھتے ہیں۔ مگر درحقیقت اسی سے ان کی یہ اصلیت آشکارا ہوجاتی ہے کہ یہ ابن الوقت، موقع پرست اور ناقابل اعتبار لوگ ہیں۔ اور یہی حال ہے کمزور ایمان والے نام نہاد مسلمانوں کا آج بھی کہ وہ اپنے دنیاوی مفادات کے تحفظ کے لئے اپنے دین و ایمان کی قیمت پر دوسروں سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو منافق لوگوں کی منافقت ان کی ہلاکت کا باعث ہے۔ اور جس کو یہ لوگ اپنی ہوشیاری اور چالاکی سمجھتے ہیں وہی ان کی محرومی کا باعث ہے جسکے نتیجے میں یہ لوگ نہ ادھر کے رہتے ہیں نہ ادھر کے۔ بلکہ دونوں طرفوں کا اعتبار کھو کر ان کے درمیان لٹکے رہتے ہیں۔ مگر ان کی مت ماری کا عالم ہے کہ ان کو اپنی اس محرومی کا احساس و شعور نہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ حالانکہ ایسے لوگ تذبذب کا شکار، لذت ایمان و یقین سے محروم، اطمینان قلب سے عاری اور لَا الٰی ھٰؤلَائِ وَلَا اِلٰی ہَؤلاء کا مصداق ہوتے ہیں۔ سو یہ ایک نقد سزا ہے نفاق کی جو ایسے بدبخت لوگوں کو یہیں ملتی رہتی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 139 صدق و اخلاص کامیابی کی اصل واساس : ـسو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ صدق ایمان و یقین کامیابی کا ذریعہ اور کفر و نفاق ہلاکت و تباہی کا باعث ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ لے آئے فتح یا ظاہر فرما دے اور کوئی امر اپنے یہاں سے۔ جیسے ان کفار و مشرکین اور منافقوں کو جلا وطن کردیا جائے۔ یا ان کے دلوں میں وہ ایسا رعب ڈال دے کہ یہ اہل حق کے مقابلے میں ہاتھ اٹھانے کے قابل ہی نہ رہیں اور جزیہ دینے کی پیشکش کردیں۔ یا کوئی ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ منافقوں کے دلوں کے یہ پوشیدہ راز آشکارا ہوجائیں اور ان کو مزید ذلت اور رسوائی سے دو چار ہونا پڑے ۔ والعیاذ باللہ ۔ پس صدق ایمان و یقین کامیابی اور فائز المرامی کا ذریعہ وو سیلہ اور کفر و نفاق ہلاکت و تباہی کا باعث ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح و کامرانی سے ہمکنار کر دے جس سے کفار و مشرکین اور یہود بےبہبود اور ان کے اعوان و اَنصار ذلیل و خوار ہو کر رہ جائیں۔ چناچہ ایسے ہی ہوا۔ مکہ کے کفار و مشرکین مغلوب ہوگئے اور مدینے کے یہودی ذلیل و خوار ہوئے اور ان کے لئے کوئی جائے پناہ باقی نہ رہی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ خواہ مخواہ خوف میں مبتلا ہیں اور دوڑ دوڑ کر ان کفار میں جا گرتے ہیں۔ حالانکہ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو عنقریب ہی فتح و کامرانی کی خوشخبری نصیب ہوجائے۔ یا اللہ تعالیٰ اپنے یہاں سے اور کوئی ایسا امر ظاہر فرما دے جس سے ان کی عزت و عظمت اور شان و شوکت میں اضافہ ہو اور ان کو غلبہ نصیب ہو۔ سو کامیابی صدق و اخلاص اور ایمان و یقین کی راہ میں ہے ۔ وباللہ التوفیق - 140 منافقت کا نتیجہ و انجام رسوائی و پریشانی : ـسو ارشاد فرمایا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ ایسے لوگوں کو ندامت اور شرمندگی اٹھانا پڑے ان باتوں پر جو ان لوگوں نے اپنے دلوں میں چھپا رکھی ہیں۔ کہ جن کا سہارا ہم نے ڈھونڈا تھا ان کا خود اپنا انجام یہ ہوگیا۔ اور جن سچے اہل ایمان کو ہم کمزور و ناتواں اور نادان سمجھتے تھے وہ اس طرح غالب آگئے۔ اور اس وقت ان منافقوں کو سخت ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سو منافقت کا نتیجہ و انجام بہرحال رسوائی اور ندامت و پریشانی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے کوئی اور معاملہ ظاہر فرما دیں جس سے ان لوگوں کا بھانڈا عین چورا ہے میں پھوٹ جائے اور ان کو اپنے دلوں میں پوشیدہ باتوں پر نادم ہونا پڑے۔ چناچہ ایسے ہی ہوا۔ اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد اسلام کی پے در پے کامیابیوں کے سامنے ان کے سب منصوبے ناکام ہوگئے اور ان کو پریشانی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اور پھر فتح مکہ کے بعد ان کی رہی سہی امیدیں بھی ختم ہوگئیں۔ ان کی ہمتیں ٹوٹ گئیں اور ان کے حوصلے جواب دے گئے۔ مدینے کے یہود مغلوب ہوگئے اور ان میں سے کچھ کو جلا وطن کردیا گیا۔ یہاں تک کہ حضرت عمر کے دور میں پورا جزیرئہ عرب یہود بےبہبود کے وجود سے پاک ہوگیا۔ سو اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ فالحمد للّٰہِ رب العالمین -
Top