Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 52
فَتَرَى الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْهِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰۤى اَنْ تُصِیْبَنَا دَآئِرَةٌ١ؕ فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰى مَاۤ اَسَرُّوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِیْنَؕ
فَتَرَى : پس تو دیکھے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل مَّرَضٌ : روگ يُّسَارِعُوْنَ : دوڑتے ہیں فِيْهِمْ : ان میں (ان کی طرف) يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں نَخْشٰٓى : ہمیں ڈر ہے اَنْ : کہ تُصِيْبَنَا : ہم پر (نہ آجائے دَآئِرَةٌ : گردش فَعَسَى : سو قریب ہے اللّٰهُ : اللہ اَن : کہ يَّاْتِيَ بالْفَتْحِ : لائے فتح اَوْ اَمْرٍ : یا کوئی حکم مِّنْ : سے عِنْدِهٖ : اپنے پاس فَيُصْبِحُوْا : تو رہ جائیں عَلٰي : پر مَآ : جو اَ سَرُّوْا : وہ چھپاتے تھے فِيْٓ : میں اَنْفُسِهِمْ : اپنے دل (جمع) نٰدِمِيْنَ : پچھتانے والے
اسی لئے تو ایسے لوگوں کو جن کے دلوں میں روگ ہے ان کی طرف دوڑتے ہوئے دیکھتا ہے (وہ) کہتے ہیں کہ ہمیں تو یہ اندیشہ رہتا ہے کہ ہم پر کہیں کوئی دقت نہ پڑجائے،194 ۔ لیکن کیا عجب کہ اللہ (کامل) فتح ہی دے دے، یا (اور کوئی) خاص بات اپنی طرف سے (کردے) تو اس وقت یہ اپنے پوشیدہ دلی خیالات پر شرمندہ ہو کر رہیں،195 ۔
194 ۔ (اور اس وقت یہودی ساہوکاروں سے دوستانہ تعلقات کام آئیں گے) دائرۃ۔ مراد ہے گردش زمانہ سے کوئی اتفاقی مصیبت مثلا قحط، گرانی، شکست جنگ وغیرہ۔ قال الواحدی الدائرۃ من دوائر الدھر کالدولۃ وھی التی تدورمن قوم الی قوم (کبیر) والدائرۃ ھی التی تخشی کا لھزیمۃ والحوادث المخوفۃ (کبیر) من دوائر الزمان ای صرف من صروفہ ودولہ فیحتاجوا الیہم (کشاف) (آیت) ” الذین فی قلوبھم مرض “ سے مراد منافقین مدینہ ہیں، یہی ان احکام امتناعی کے باوجود، یہودی مہاجنوں، ساہوکاروں سے برابر رشتہ موالات قائم کیے ہوئے تھے، مرض سے مراد شک ونفاق کا مرض ہے۔ مرض شک ونفاق والمراد ابن ابی و اصحابہ (قرطبی) المنافقون مثل عبداللہ بن ابی و اصحابہ (کبیر) (آیت) ” فتری “۔ میں خطاب عام ہے، یعنی اے دیکھنے والے (آیت) ” فیھم “۔ یعنی ان کی دوستی کی طرف جن سے ان کا لین دین جاری تھا۔ ای فی موالاتھم ومعاونتھم (بیضاوی۔ قرطبی) فی مودۃ الیھود ونصاری نجران لانھم کانوا اھل ثروۃ وکانوا یعینونھم علی مھماتھم ویقرضونھم (کبیر) (آیت) ” یقولون “۔ یعنی مسلمانوں سے بہ طور حیلہ بازی اور سخن سازی کے کہتے ہیں، روایتوں میں آتا ہے کہ مدینہ میں جو پر قوت جتھا عبداللہ بن ابی کی سرداری میں منافقوں کا تھا، وہ برابر متمول یہود ونصاری سے لین دین جاری رکھے ہوئے تھے، اور مسلمانوں سے کہتا رہتا کہ کل کی کیا خبر، اگر کہیں یہی لوگ تم پر غالب آگئے، یا اور کوئی مصیبت ہم تم پر پھٹ پڑی تو بغیر ان لوگوں سے مدد لیے کچھ بنائے نہ بنے گی، اس لیے انہیں ساتھ لیے رہنا ضروری ہے۔ 195 ۔ اور شرمندگی بھی کیسی، دہری بلکہ تہری تہری شرمندگی اٹھانا پڑے۔ پہلی کھسیاہٹ تو اسی کی کہ سمجھے کیا تھے، اور ہوا کیا، دوسری جھنجھلاہٹ اپنی رسوائی پر جو نفاق کمبخت کی بدولت ظہور میں آئی، تیسرا غصہ اپنی اس ناکامامی پر کہ ادھر کافروں سے دوستی کچھ آڑے نہ آئی، اور ادھر مسلمانوں سے بھی بےبنے ! (آیت) ” عسی اللہ “۔ عسی کے لیے اوپر کئی بار آچکا ہے کہ جب اس کا تعلق حق تعالیٰ کے کسی فعل سے ہوتا ہے تو معنی میں شک واحتمال نہیں رہتا، بلکہ مفہوم یقین کا پیدا ہوجاتا ہے۔ (آیت) ” یاتی بالفتح “۔ یہ فتح مسلمانوں کو انہی کافروں کے مقابلہ میں حاصل ہوگئی جو آج ان منافقوں کی امیدوں کا سہارا اور جائے پناہ بنے ہوئے ہیں۔ (آیت) ” امر من عندہ “۔ اللہ کیطرف سے کوئی خاص بات، مثلا انہیں منافقین کی پردہ دری ان کے ناموں کی تعیین کے ساتھ۔
Top