Tadabbur-e-Quran - Al-Maaida : 52
فَتَرَى الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْهِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰۤى اَنْ تُصِیْبَنَا دَآئِرَةٌ١ؕ فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰى مَاۤ اَسَرُّوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِیْنَؕ
فَتَرَى : پس تو دیکھے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل مَّرَضٌ : روگ يُّسَارِعُوْنَ : دوڑتے ہیں فِيْهِمْ : ان میں (ان کی طرف) يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں نَخْشٰٓى : ہمیں ڈر ہے اَنْ : کہ تُصِيْبَنَا : ہم پر (نہ آجائے دَآئِرَةٌ : گردش فَعَسَى : سو قریب ہے اللّٰهُ : اللہ اَن : کہ يَّاْتِيَ بالْفَتْحِ : لائے فتح اَوْ اَمْرٍ : یا کوئی حکم مِّنْ : سے عِنْدِهٖ : اپنے پاس فَيُصْبِحُوْا : تو رہ جائیں عَلٰي : پر مَآ : جو اَ سَرُّوْا : وہ چھپاتے تھے فِيْٓ : میں اَنْفُسِهِمْ : اپنے دل (جمع) نٰدِمِيْنَ : پچھتانے والے
تم ان لوگوں کو، جن کے دلوں میں روگ ہے، دیکھتے ہو کہ وہ ان کی طرف پینگیں بڑھا رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ ہم کسی مصیبت میں نہ پھنس جائیں۔ تو بہت ممکن ہے کہ اللہ فتح یا اپنی طرف سے کوئی خاص بات دکھائے اور انہیں اس چیز پر جو یہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں، نادم ہونا پڑے
تفسیر آیت 52۔ 53:۔ فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ ۭفَعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَ سَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ۔ وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَهٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۙاِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ ۭحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِيْنَ۔ منافقین کے دل کا چور : فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ۔ "" یہاں تفصیل کے لیے ہے اور خطاب، عام مسلمانوں سے ہے۔ اوپر کی آیت میں جو بات اجمال کے ساتھ فرمائی گئی تھی اور پردے میں تھی اب پردہ اٹھا کر اس کی تفصیل فرمائی جا رہی ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو ان سے پینگیں بڑھا رہے ہیں، ان کا مدعا کیا ہے اور بالآخر ان کا انجام کیا ہونا ہے۔ فرمایا کہ جن کے دلوں میں مرض ہے وہ ان کے ساتھ دوست گانٹھنے کے لیے بےقرار ہیں۔ " مرض " کے لفظ پر سورة بقرہ کی تفسیر میں بحث گزر چکی ہے۔ یہاں اس سے مراد قرینہ دلیل ہے کہ نفاق ہے۔ نفاق کے لیے مرض کا لفظ استعمال کر کے قرآن نے یہ واضح فرما دیا کہ ان لوگوں کی یہ حرکت دل کی بیماری اور اس کے فساد کا نتیجہ ہے۔ اگرچہ یہ اس کو اپنی بڑی دانش مندی اور پیش بینی سمجھتے ہیں۔ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ، قول کا لفظ جی میں کوئی کہنے کے لیے بھی قرآن میں متعدد مقامات میں استعمال ہوا ہے، قرآن نے آگے اس کو کھول بھی دیا ہے اس لیے کہ فرمایا ہے۔ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَ سَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ (یعنی وہ جو کچھ اپنے دل میں چھپائے ہوئے ہیں اس پر نادم ہوں گے)۔ ظاہر ہے کہ یہ اشارہ اسی بات کی طرف ہے جس کا ذکر نخشی ان تصیبنا دائرۃ کے الفاظ سے ہوا ہے۔ دائرہ کے معنی گردش، آفت اور مصیبت کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان منافقین کے دل میں یہ ڈر سمایا ہوا ہے کہ اس وقت مسلامنوں اور ان کے مخالفین میں جو کشمکش برپا ہے معلوم نہیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے، ہوسکتا ہے کہ بالآخر فتح مخالفین ہی کی ہو، ایسی صورت میں اگر ہم مسلمانوں ہی کے ہو کے رہ گئے تو سخت مصیبت میں پھنس جائیں گے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ دونوں سے راہ و رسم باقی رکھنے کی کوشش کی جائے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ جس زمانے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں، اس زمانے تک، جیسا کہ ہم پیچھے ذکر کر آئے ہیں، مسلمان اگرچہ ایک سیاسی طاقت بن چکے تھے لیکن ابھی ان کو مکمل اقتدار حاصل نہیں ہوا تھا، اپنے اپنے دائروں میں یہود اور قریش بھی بااقتدار تھے، اگرچہ یہ اقتدار رو بہ زوال تھا لیکن منافقین کا قلبہ رشتہ چونکہ ان مخالف اسلام طاقتوں ہی کے ساتھ تھا اس وجہ سے وہ آسانی کے ساتھ یہ باور کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ اسلام کے مقابل میں اب ان کے ٹک سکنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَ سَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ۔ عسی اگرچہ اصلاً امکان غالب اور ظن غالب ہی کے اظہار کے لیے آتا ہے لیکن موقع دلیل ہو تو، جیسا کہ ہم دوسرے مقام میں اشارہ کرچکے ہیں، یہ وعدے کی تعبیر کے لیے بھی ایک لطیف اسلوب ہے۔ یہاں یہ اسی مفہوم میں ہے، " بالفتح " سے مراد وہ آخری اور مکمل فتح ہے، جس کے بعد دشمن کی قوت بالکلیہ ختم ہوجائے، اوامر من عندہ " سے ایسی کوئی صورت مراد ہے جس سے منافقین کا سارا بھانڈا پھوٹ جائے اور ان کے لیے کہیں منہ چھپانے کی جگہ باقی نہ رہ جائے۔ سورة توبہ میں اس کی ایک شکل یہ بیان ہوئی ہے۔ " یحذر المنافقون ان تنزل علیہم سورة تنبئہم بما فی قلوبہم، قل استہزء وا ان اللہ مخرج ما تحذرو : منافقین ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے باب میں کوئی ایسی سورة نہ نازل ہوجائے جو ان کے دلوں کے سارے راز ان پر آشکارا کردے، کہہ دو ، مذاق کرلو، اللہ ظاہر کرنے والا ہے جس کا تم اندیشہ رکھتے ہو "۔ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَ سَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ ، میں ان کے اسی خیال کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر اوپر گزرا کہ یہ اسلام کی طرف یکسو ہوجانے میں اپنے مستقبل کی طرف سے اندیشہ ناک ہیں کہ اگر فتح یہود اور مشرکین کی ہوئی تو یہ مصیبت میں پھنس جائیں گے۔ وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا۔۔ الایۃ، یہ مسلمانوں کی طرف سے ان منافقین کے حال پر اس وقت کا اظہارِ تعجب نقل ہوا ہے جب ان کا سارا راز فاش ہوجائے گا، اس وقت مسلمان آپس میں کہیں گے، ارے، کیا یہی وہ لوگ ہیں جو بڑے زور و شور سے قسمیں کھا کھا کر ہمیں یقین دلاتے تھے کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ! مقصود اس صورت حال کی تصویر سے منافقین کو جھنجھوڑتا ہے کہ کب تک چھپنے اور چھپانے کی کوشش کروگے، بالآخر ایک دن برسر عام رسوائی ہونی ہے۔ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِيْنَ۔ ، مسلمانوں کے قول کا ایک حصہ بھی ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان منافقین کے انجام کا بیان بھی۔ ہمارا رجحان اس دوسرے پہلو کی طرف ہے۔ " حبط عمل " کی حقیقت پر ہم دوسری جگہ بحث کرچکے ہیں۔ اعمال کے مثمر ہونے کا انحصار تمام تر ایمان و اخلاص پر ہے۔ نفاق کے ساتھ دینداری کی جو نمائش کی جاتی ہے۔ وہ محض نمائش ہوتی ہے، حقیقت کی میزان میں اس کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔
Top