Urwatul-Wusqaa - Al-Hadid : 9
هُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰى عَبْدِهٖۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ بِكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
هُوَ الَّذِيْ : وہ اللہ وہ ذات ہے يُنَزِّلُ : جو اتارتا ہے عَلٰي عَبْدِهٖٓ : اپنے بندے پر اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : آیات روشن لِّيُخْرِجَكُمْ : تاکہ وہ نکالے تم کو مِّنَ الظُّلُمٰتِ : اندھیروں سے اِلَى النُّوْرِ ۭ : روشنی کی طرف وَاِنَّ اللّٰهَ : اور بیشک اللہ تعالیٰ بِكُمْ : ساتھ تمہارے لَرَءُوْفٌ : البتہ شفقت کرنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
وہی تو ہے جس نے اپنے بندے پر واضح آیتیں نازل کی ہیں تاکہ تم کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے اور درحقیقت اللہ تم پر انتہائی شفقت کرنے والا پیار کرنے والا ہے
قرآن کریم کے نزول کا اصل مقصد اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے جانا ہے 9 ؎ (ایات بینات) (ایات) کا لفظ قرآن کریم میں 15 بار آیا ہے اور ( ایات بینات) کا لفظ بھی اسی تعداد میں شامل ہے ہمارے مفسرین نے جہاں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد معجزات ہی لیے ہیں لیکن زیر نظر آیت نہ معلوم ان کی نظر سے کیسے بچ گئی کہ اکثر مفسرین نے تو یہاں کوئی بات ہی نہیں کی اور جن مفسرین نے کچھ بیان کیا انہوں نے بھی اس لفظ سے مراد عام تعلیمات اسلام ہی لی ہیں جو نبی اعظم و آخر ﷺ کے ذریعہ سے لوگوں کو مل رہی تھیں لیکن ہماری تفہیم کے مطابق اس جگہ ( ایات بینات) ان آیات کریمات کو کہا گیا ہے جو انفاق فی سبی اللہ اور جہادفی سبیل اللہ کا حکم دیتی ہے اور یہ بات ان شاء اللہ آپ کو آگے چل کر اسی سورت میں واضح ہوجائے گی کہ جو مراد ہم نے اس جگہ ( ایات بینات) سے لی ہے وہ صحیح اور درست ہے اور ( عبدہ ) سے مراد محمد رسول اللہ ﷺ ہیں اور وہ مراد لیے جاسکتے ہیں اور آگے اس آیت میں ( ایات بینات) کا مقصود مفہوم بتایا اور سمجھایا گیا ہے یعنی انفاق فی سبیل اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ سے کیا حاصل ہوتا ہے ؟ فرمایا اس سے قوم اندھیروں سے نکل کر روشنی کی طرف آتی ہے کیونکہ دنیا کی محبت جو سراسر تاریکی ہی تاریکی ہے اور آخرت سے پیار روشنی ہی روشنی پھر جس کی محبت دنیا سے ہوگی وہ انفاق فی سبی اللہ سے رک جائے گا اور اس کے سامنے دنیا کی ایک ایک خواہش حجاب اور پردہ بن کر کھڑی ہوجائے گی اور اس کے مقابلہ میں جو شخص جو انفاق فی سبیل اللہ میں سبقت حاصل کرے گا اور اپنی نہایت محنت و مشقت سے کمائی ہوئی دولت کا ایک کا فی حصہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کردے گا وہ ان حجابات کو ہٹا کر اس روشنی میں داخل ہوگا جس کا تعلق براہ راست جنتی زندگی کے ساتھ ہے اور آخرت آیت میں یہ بات مزید بتا دی کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ شفقت کرنے والا اور پیار کرنے والا ہے اور اس کی شفقت اور پیار کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کے سامنے سے دنیا کا حجاب اور پردہ اٹھ جائے جس کی ظاہری علامت یہ ہے کہ انسان انفاق فی سبیل اللہ کی طرف راغب ہوجائے اور جب بھی اور جہاں بھی موقع اس کو میسر آئے تو بےدھڑک اس میں حصہ لینے لگے۔
Top