Aasan Quran - Al-A'raaf : 147
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآءِ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ١ؕ هَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات کو وَلِقَآءِ : اور ملاقات الْاٰخِرَةِ : حَبِطَتْ : ضائع ہوگئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے عمل هَلْ : کیا يُجْزَوْنَ : وہ بدلہ پائیں گے اِلَّا : مگر مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
اور جن لوگوں نے ہماری نشانیوں کو اور آخرت کا سامنا کرنے کو جھٹلایا ہے، ان کے اعمال غارت ہوگئے ہیں۔ انہیں جو بدلہ دیا جائے گا، وہ کسی اور چیز کا نہیں خود ان اعمال کا ہوگا جو وہ کرتے آئے تھے۔ (68)
68: اوپر جو یہ فرمایا گیا تھا کہ : میں اپنی نشانیوں سے ان لوگوں کو برگشتہ رکھوں گا جو زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں۔ اس سے کسی کو یہ شبہہ ہوسکتا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے خود ان کو اپنی نشانیوں سے برگشتہ کردیا تو ان کا کیا قصور۔ اس شبہ کو اس فقرے کے ذریعے دور فرمایا گیا ہے مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے اختیار سے کفر پر اڑے رہنے کا راستہ اختیار کرلیتا ہے تو ہم وہی راستہ اس کے لیے مقدر فرما دیتے ہیں جسے اس نے اپنی مرضی سے اختیار کیا۔ چونکہ وہ چاہتا ہی یہ تھا کہ ہماری نشانیوں سے برگشتہ رہے، اس لیے ہم اس کو اس کی خواہش کے خلاف کسی بات پر مجبور نہیں کرتے۔ بلکہ اسے اس کی خواہش کے مطابق برگشتہ ہی رکھتے ہیں۔ لہذا اس کو جو سزا ملتی ہے وہ خود اپنے ہی عمل کی ملتی ہے جو وہ اپنے اختیار سے مسلسل کرتا آیا تھا۔
Top