Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 147
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآءِ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ١ؕ هَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات کو وَلِقَآءِ : اور ملاقات الْاٰخِرَةِ : حَبِطَتْ : ضائع ہوگئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے عمل هَلْ : کیا يُجْزَوْنَ : وہ بدلہ پائیں گے اِلَّا : مگر مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
اور جن لوگوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں اور آخرت کے پیش آنے سے منکر ہوئے تو ان کے سارے کام اکارت گئے وہ جو کچھ بدلہ پائیں گے وہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ انہی کے کرتوتوں کا پھل ہوگا جو دنیا میں کرتے تھے
وہ کون ہیں جن کا کیا کرایا سب اکارت گیا ؟ اور اپنے کرتوتوں کی سزا پائی : 161: پیچھے اس گمراہی کا ذکر کیا گیا تھا کہ بعض لوگ ایسے ہیں کہ اگر وہ ہدایت کی سیدھی راہ دیکھیں تو منہ پھیر جائیں اور کبھی اس پر نہ چلیں اور اگر گمراہی کی ٹیڑھی راہ دیکھیں تو فوراََ اس کو اختیار کرلیں اور ہم دیکھ رہے ، پڑھ رہے ہیں کہ روز اول سے لے آج تک ایک آدمی بھی ایسا نہیں ملتا جو اس بات کو تسلیم کرے کہ میں سیدھی راہ چلنے کیلئے تیار نہیں بلکہ میرا کام الٹی اور ٹیڑھی راہ چلنا ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ سیدھی راہ سے منہ پھیرنے والا اس راہ کو سیدھی تسلیم نہیں کرتا بلکہ اس کو ٹیڑھی سمجھتا ہے اس لئے اس پر چلنے کیلئے تیار نہیں ہوتا اور سیدھی راہ چلنے والوں کو کہتا ہے کہ تم الٹی راہ پر چل رہے ہو ۔ سارے نبیوں (علیہ السلام) کے واقعات پڑھ جائو کسی ایک نبی (علیہ السلام) کی قوم نے بھی یہ نہیں کہا کہ جو نبی کہتا ہے وہ حق ہے اور بلا شبہ اس کی راہ سیدھی ہے لیکن ہم اس سیدھی راہ کو ماننے کے لئے تیار نہیں بلکہ ہر نبی کو جھٹلایا گیا اور یہ کہا گیا کہ تو نہ تو اللہ کا رسول ہے اور نہ ہی تیری راہ سیدھی راہ ہے ۔ زیر نظر آیت میں دراصل یہ بتیا جا رہا ہے کہ جو سیدھی راہ ہے وہ ہر حال میں سیدھی ہے کوئی اس کو ٹیڑھی کہے یا سیدھی اور اس طرح ہر ٹیڑھی راہ ٹیڑھی ہے خواہ کوئی اس کو کوئی ہزار ہا بار سیدھی سمجھتا رہے لہٰذا اختلاف کا حل یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی راہ ہمیشہ سیدھی راہ ہوتی ہے اور اس کے مخالف راہ یقیناً ٹیڑھی راہ ہوگی اس لئے یہ بات طے اور واضح ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کی نشانیوں کو جھٹلایا اور آخرت کے پیش آنے سے منکر ہوئے تو ان کے سارے کام اکارت گئے ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت میں کئے گئے کام کبھی صحیح نہیں ہو سکتے تھے اور غلط اعمال کا نتیجہ کبھی صیحے نہیں ہو سکتا تھا لہٰذا ان کے غلط اعمال کا نتیجہ یقیناً غلط ہی نکلے گا جو ان کے حق میں مفید ہونے کی بجائے نقصان دہ ثابت ہوگا ۔ اس لئے انہوں نے جو کچھ بدلہ پایا وہ اس کے سوا کیا تھا کہ وہ انہی کے کرتوتوں کا پھل تھا جو سزا کی صورت میں ان کو مل گیا ۔ بالفاظ دیگر اعمال کے نافع اور نتیجہ خیز ہونے کا سارا انحصار اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر ہے ۔ اطاعت سے منحرف ہوجانے کے بعد کوئی عمل خیر نہیں رہتا کہ آدمی اس پر کوئی اجر پانے کا مستحق ہو سکے۔
Top