Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 151
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِاَخِیْ وَ اَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِكَ١ۖ٘ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ۠   ۧ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اغْفِرْ لِيْ : مجھے بخشدے وَلِاَخِيْ : اور میرا بھائی وَاَدْخِلْنَا : اور ہمیں داخل کر فِيْ رَحْمَتِكَ : اپنی رحمت میں وَاَنْتَ : اور تو اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ : سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے
تب موسیٰ نے کہا اے میرے رب ! معاف فرما دے مجھے بھی اور میرے بھائی کو بھی، اور داخل فرما دے ہمیں اپنی رحمت میں، اور تو ہی سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا،1
201 حضرات انبیائے کرام کی شان عبدیت و رجوع الی اللہ : یعنی جب آپ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور یہ امر واضح ہوگیا کہ حضرت ہارون کا اس معاملے میں کوئی قصور نہیں تھا تو آپ فوراً اپنے خالق ومالک کی طرف متوجہ ہوگئے تاکہ اس طرح اپنے بھائی کو بھی راضی کرسکیں اور اعداء کو شماتت کا موقع بھی نہ ملنے پائے۔ اور ان کے بارے میں جس سوئِ ادب کا ارتکاب کیا تھا اس کی معافی بھی ہوجائے۔ سو آپ نے اپنے رب کے حضور عرض کیا کہ " میری بھی بخشش فرما دے اور میرے بھائی کی بھی " اگر ان سے کوئی لغزش و کوتاہی سرزد ہوگئی ہو۔ اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما دے۔ سو یہی شان ہوتی ہے حضرات انبیائے کرام کی کہ وہ ایسے موقع پر فوراً اپنے رب کی طرف رجوع کرلیتے ہیں۔ سو صورت معاملہ کے ظاہر اور حضرت ہارون کی بےقصوری کے واضح ہوجانے کے بعد حضرت موسیٰ نے اپنے لئے اور اپنے بھائی کیلئے بخشش کی دعا کی ۔ علی نبینا وعلیہما الصلاۃ والسلام - 202 رحمت خداوندی میں داخلے کی دعا : سو آنجناب نے حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی بارگہ اقدس و اعلیٰ میں مزید عرض کیا " اور داخل فرما دے ہمیں اپنی رحمت میں کہ تو ہی ہے ارحم الراحمین " اور ہم سب تیری ہی رحمت کے محتاج ہیں۔ اور دنیا میں جہاں بھی کہیں رحمت کا کوئی نمونہ و مظہر پایا جاتا ہے وہ درحقیقت تیری ہی طرف سے ہوتا ہے اے ہمارے مالک۔ پس ہمیں ہمیشہ اپنی رحمتوں اور عنایتوں کے سائے میں رکھنا کہ تیری رحمت و عنایت کے ظل ظلیل کے ہم ہمیشہ اور ہر حال میں محتاج ہیں۔ سو یہ ہوتی ہے حضرات انبیائے کرام کی شان عبدیت۔ اور رجوع الی اللہ۔ کہ وہ ہر موقع پر اس کے حضور اپنے دست دعاء وسوال دراز کردیتے ہیں ۔ (علیہ السلام) ۔ سو اس آیت کریمہ نے معاملہ کو پوری طرح واضح کردیا کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کا دامن ہر طرح سے پاک تھا۔ اور اس پر کوئی شائبہ اور داغ دھبہ اس بارے موجود نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے بس کی حد تک گوسالہ پرستی کے اس جرم کی تردید و انکار میں کوئی کوتاہی نہیں برتی۔ جبکہ بائبل کے مصنفوں نے اس کا الزام حضرت ہارون ہی پر رکھا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن حکیم کے دنیا پر کتنے احسانات ہیں اور اس نے گزشتہ انبیاء و رسل کی بھی کس کس طرح صفائی پیش فرمائی ہے ۔ والحمد للہ جل وعلا بکل حال من الاحوال -
Top