Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 151
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِاَخِیْ وَ اَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِكَ١ۖ٘ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ۠   ۧ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اغْفِرْ لِيْ : مجھے بخشدے وَلِاَخِيْ : اور میرا بھائی وَاَدْخِلْنَا : اور ہمیں داخل کر فِيْ رَحْمَتِكَ : اپنی رحمت میں وَاَنْتَ : اور تو اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ : سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے
(موسی (علیہ السلام) نے اب) کہا کہ اے میرے پروردگار مجھ سے اور میرے بھائی سے درگزر کر، اور ہم دونوں کو اپنی رحمت (خاص) میں داخل کر اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے،206 ۔
206 ۔ حضرات انبیاء سے بڑھ کر رحمت الہی کا قدر شناسا اور اندازہ دان اور کون ہوسکتا ہے۔ صحیح صورت حال کا علم ہوتے ہی معا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کلیم اللہ استغفار ومناجات میں مشغول ہوگئے۔ (آیت) ” رب اغفرلی ولاخی “۔ درخواست مغفرت اپنے ہی لیے نہیں اپنے ان بھائی کے لئے بھی ہے جن پر ابھی ابھی یہ تشدد ہورہا تھا ! اپنے لئے تو استغفار اس امر پر کہ غیرت توحید سے بےخود ہو کر قبل تحقیق ہارون (علیہ السلام) نبی پر سخت گیری کیوں شروع کردی تھی، اے فیما اقدمت علیہ من ھذا الغضب والحدۃ (کبیر) بما صنعت باخی (بیضاوی) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے لئے استغفار اس امر پر کہ دفع فتنہ پر پوری طرح کامیاب نہ ہوسکے۔ اے فی ترکہ التشدید العظیم علی عبدۃ العجل (کبیر) تو ھما بانہ قصر فی کفھم (بیضاوی) بھائی کو اپنی دعائے مغفرت کے ساتھ ملا لینا اس لیے بھی تھا کہ وہ ان سے خوش ہوجائیں اور اس لیے بھی کہ ان پر سے شماتت دفع ہوجائے۔ ضمہ الی نفسہ فی الاستغفار ترضیۃ لہ ودفعا للشمالۃ عنہ (بیضاوی)
Top