Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 6
وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰى یَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَاِنْ : اور اگر اَحَدٌ : کوئی مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین اسْتَجَارَكَ : آپ سے پناہ مانگے فَاَجِرْهُ : تو اسے پناہ دیدو حَتّٰي : یہانتک کہ يَسْمَعَ : وہ سن لے كَلٰمَ اللّٰهِ : اللہ کا کلام ثُمَّ : پھر اَبْلِغْهُ : اسے پہنچا دیں مَاْمَنَهٗ : اس کی امن کی جگہ ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لیے کہ وہ قَوْمٌ : لوگ لَّا يَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے
اور اگر ان مشرکوں میں سے کوئی شخص آپ سے پناہ مانگے تو آپ اسے پناہ دے دیں، یہاں تک کہ وہ لے اللہ کا کلام پھر اس کو پہنچادو اس کی امن کی جگہ، یہ (رعایت) اس لئے ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو جانتے نہیں (حق اور حقیقت کو)
14 مشرکوں کیلئے ایک رعایت کا ذکر : سو اس سے ان مشرکین کے لیے خاص رعایت کا ذکر فرمایا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ یہ لوگ جانتے نہیں۔ اس لئے یہ اس رعایت کے مستحق ہیں۔ پھر حق اور حقیقت کو جاننے کے بعد یہ اپنی مرضی سے جو راستہ خود اختیار کریں اسی طرح کا معاملہ ان سے کیا جائے۔ بہرکیف یہ مشرکوں کیلئے ایک رعایت کا ذکر وبیان ہے تاکہ ان کو حق اور حقیقت کا علم حاصل ہوسکے اور اس کے بعد ان کیلئے کسی عذر و معذرت اور حیل و حجت کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ جائے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر ان میں سے کوئی امان کا طالب ہو تو اس کو امان دے دی جائے اور اس کو اللہ اور اس کے رسول کی دعوت اور اس کا مقصد اچھی طرح سمجھا دیا جائے۔ اور اس کے بعد اس کو اس کی امان کی جگہ پہنچا دیا جائے تاکہ وہ اپنے معاملے پر ٹھنڈے دل سے غور و فکر کرلے اور خوب سوچ کر فیصلہ کرلے کہ وہ اسلام قبول کرتا ہے یا تلوار۔ سو یہ امان بخشی اور پناہ اس کے لیے اتمام حجت کے نقطہ نظر سے تھی جو کہ دین حق کی رحمت و عنایت کا ایک مظہر ہے ۔ فالحمد للہ رب العالمین -
Top