Madarik-ut-Tanzil - An-Naml : 55
اَئِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِ١ؕ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ
اَئِنَّكُمْ : کیا تم لَتَاْتُوْنَ : آئے ہو الرِّجَالَ : مردوں کے پاس شَهْوَةً : شہوت رانی کے لیے مِّنْ : عورتوں کے سوا دُوْنِ النِّسَآءِ : عورتوں کو چھوڑ کر بَلْ : بلکہ اَنْتُمْ : تم قَوْمٌ : لوگ تَجْهَلُوْنَ : جہالت کرتے ہو
کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر لذت (حاصل کرنے) کے لئے مردوں کی طرف مائل ہوتے ہو حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ احمق لوگ ہو
55: اَئِنَّکُمْ (کیا تم ہی) ۔ قراءت : شامی ٗ کوفی نے دو ہمزہ سے پڑھا۔ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ (کیا تم مردوں سے شہوت پوری کرتے ہو) ۔ شہوۃ ای لشہوۃ۔ شہوت پوری کرنے کے لئے۔ مِنْ دُوْنِ النِّسائِ (عورتوں کو چھوڑ کر) ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے عورت کو مرد کے لئے بنایا ہے۔ مرد کو مرد کے لئے نہیں بنایا۔ اور نہ مؤنث کو مؤنث کے لئے بنایا گیا ہے۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ کی حکمت سے ٹکراتی ہے۔ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْہَلُوْنَ (بلکہ تم جاہل لوگ ہو) ۔ نمبر 1۔ جاہلوں جیسے کام کرتے ہو اس لئے کہ اس کا بےحیائی ہونا تمہیں بخوبی معلوم ہے۔ نمبر 2۔ جہل سے مراد حماقت اور وہ مخول جس پر وہ قائم تھے۔ اس جملہ میں خطاب و غائب دونوں جمع ہوگئے اور دوسری آیت : بل انتم قوم تُفْتَنون۔ [ النمل : 47] میں دونوں مخاطب ہیں۔ اس آیت میں خطاب کو غائب پر غلبہ دے دیا کیونکہ وہ قوت میں بڑھ کر ہے۔ اس لئے کہ اصل کلام تو دو موجود آدمیوں میں ہوتی ہے۔
Top