Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 55
اَئِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِ١ؕ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ
اَئِنَّكُمْ : کیا تم لَتَاْتُوْنَ : آئے ہو الرِّجَالَ : مردوں کے پاس شَهْوَةً : شہوت رانی کے لیے مِّنْ : عورتوں کے سوا دُوْنِ النِّسَآءِ : عورتوں کو چھوڑ کر بَلْ : بلکہ اَنْتُمْ : تم قَوْمٌ : لوگ تَجْهَلُوْنَ : جہالت کرتے ہو
کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس شہوت کے ساتھ آتے ہو ، (حقیقت میں) تم لوگ تو بہت ہی جاہل ہو
اس جہالت کا مظاہرہ کرکے تم من حیث القوم سارے ہی جاہل ہو رہے ہو : 55۔ قوم لوط کی اس غیر فطری حرکت کو جہالت کا باعث قرار دیا ہے کیا واقعی وہ جہالت کے باعث ایسا کرتے تھے اس کے جواب سے پہلے یہ فیصلہ ضروری ہے کہ واضح ہوجائے کہ جہالت کیا چیز ہے ؟ کسی کام کا بغیر اس کے مآل کو سمجھتے ہوئے کرنا جہالت ہے خواہ وہ کام کرنے والا کون ہو گویا اس جگہ یہ لفظ حماقت اور سفاہت کے لئے استعمال ہوا ہے ہم اردو زبان میں بھی ان معنوں میں اسی لفظ کا استعمال کرتے ہیں مثلا جب کوئی شخص گالی گلوچ پر اتر آتا ہے اور اس طرح کی بیہودہ حرکات کا مرتکب ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ وہ جہالت پر اتر آیا ہے ، ظاہر ہے کہ جو شخص اس طرح کی حرکت کا مرکتب ہوتا ہے کہ خواہش نفس کے ازالہ کے لئے ایک غیر فطری طریقہ استعمال کرتا ہے جب کہ اس کا ایک فطری طریقہ بھی موجود ہے تو اس کو جاہل نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے اگر اس حرکت کا مرتکب ایم ۔ اے پاس اور کسی اسلامی درسگاہ کا فاضل ہے تو وہ بھی جہالت ہی کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے اور جاہل بھی اسی کو کہتے ہیں جو جہالت کا کام کرے لہذا اس وقت اسی کو جاہل کہیں گے بلکہ وہ اجھل ہوگا اور اس لئے وہ زیادہ مستحق عقوبت ہے اور ایسے آدمی کو دوسروں کی نسبت زیادہ سز ملنی چاہئے ، حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کے سارے لوگ خواہ وہ کن عہدوں پر فائز تھے اور کتنے پڑھے لکھے تھے سب کے سب اس بےحیائی اور غیر فطری عمل میں یکساں طور پر ملوث تھے اس لئے ان کا جب بھی ذکر آیا تو انکی یہ بیماری ذکر کی گئی کہ یہ لوگ بےغیرت تھے کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کو ازالہ خواہش کے لئے استعمال کرتے تھے گویا ان کی ٹینکیاں جب بھر جاتی تھیں تو ٹوٹیاں بہنے لگتی تھیں جب تک امرد ہوتے مفعول ہوتے اور جب مرد ہوجاتے تو فاعل بن جاتے اس طرح ان میں کا ہر فرد مفعول بھی تھا اور فاعل بھی اور ان کے چہرے صاف بتا دیتے تھے کہ یہ حاجی ‘ نمازی ‘ علامہ فہامہ ‘ داڑھیوں کی لمبائی اور پیشانیوں کی کشادگی کے باوجود اپنی آنکھوں کے حلقوں ‘ گلے کے آوازوں اور است کی بیماریوں سے سب کچھ ظاہر کر رہے ہیں ان کے گھوڑے کتنے تیز دوڑتے تھے اور انہوں نے کہاں کہاں کی خاک چھانی ہے اور کن صفوں کو انہوں نے گندہ کیا ہے قرآن کریم نے تو اس بات کو اس لئے بار بار ذکر کیا ہے کہ آنے والی نسلیں جن کو یہ بات بتائی جا رہی ہے کچھ شرم کریں اور اس طرح کی ناپاکی سے بچنے کی کوشش کریں لیکن ہم قوم لوط کے اس عمل کو بڑی وضاحت سے بیان کرنے کے باوجود اپنی مجلسوں میں اس کی تلاوت کے وقت جھوم جھوم جانے کے باوجود کتنے ہی جو اس مرض کے مریض ہیں اور اپنے اندر خوش ہیں کہ یہ مرض تو قوم لوط کا بیان کیا جا رہا ہے نہ کہ ہمارا کیونکہ بار بار نام تو حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم ہی کا لیا جا رہا ہے اور یہی وہ غلط فہمی ہے جس نے آج ہمیں قرآن کریم سے بالکل بےگانہ کردیا ہے ہم دوسری قوموں کے تذکار پڑھتے ہیں اور اس طرح پڑھتے ہیں کہ شاید ہماری زندگی سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور علمائے کرام بیان کرتے وقت بھی ان کو نہیں جھنجھوڑتے ہیں کہ صاحب ! یہ جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے یہ محض تمہاری خاطر بیان کیا جا رہا ہے کہ ان لوگوں نے ایسا ایسا کیا تھا اور اس ایسے ایسے کا نتیجہ جو اس وقت نکلا تھا وہی ہے جو آج ہمارے اور تمہارے کرنے سے بھی نکلے گا تم کو یہ ایک قصہ نہیں سنایا جا رہا ہے بلکہ ایک نصیحت کی جا رہی ہے اور سب سے بڑھ کر اس وقت اس معاملہ میں جو غلطی کی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ آج ہمارے اخبارات ‘ ریڈیو ‘ ٹیوی اور رسل و رسائل کے جتنے اداری ہیں وہ جب اس کا ذکر کرتے ہیں تو اس فعل کو ” لواطت “ کے لفظ سے بولتے ہیں اور یاد کرتے ہیں جو ایک نہایت غلط بات ہے کہ ایسے فعل کی نسبت حضرت لوط (علیہ السلام) کی طرف کی جائے بلکہ اس کا اصل نام سدومیت ہے اور اس کو اسی کے نام سدومیت ہی سے یاد کرنا چاہئے ۔
Top