Mafhoom-ul-Quran - Ar-Ra'd : 21
وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِؕ
وَ : اور الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَصِلُوْنَ : جوڑے رکھتے ہیں مَآ : جو اَمَرَ اللّٰهُ : اللہ نے حکم دیا بِهٖٓ : اس کا اَنْ : کہ يُّوْصَلَ : جوڑا جائے وَيَخْشَوْنَ : اور وہ ڈرتے ہیں رَبَّهُمْ : اپنا رب وَيَخَافُوْنَ : اور خوف کھاتے ہیں سُوْٓءَ : برا الْحِسَابِ : حساب
اور جن قرابت کے رشتوں کو جوڑے رکھنے کا حکم اللہ نے دیا ان کو جوڑے رکھتے اور اپنے رب سے ڈرتے رہتے اور برے حساب سے خوف کھاتے ہیں۔
نیک لوگ اور ان کا انعام تشریح : ان آیات مبارکہ میں چند اصول زندگی بتائے گئے ہیں۔ قرآن پاک ہدایت اور حکمت کی کتاب ہے اس میں انسان کے لیے کامیاب زندگی گزارنے کے ایسے سنہری اصول بتائے گئے ہیں کہ اگر ان پر پوری طرح عمل کیا جائے تو ہماری زندگیاں خوشیوں، کامیابیوں اور سکون سے بھر سکتی ہیں۔ مثلاً رشتوں کو جوڑے رکھنے کا حکم، بظاہر چھوٹی سی بات ہے مگر جب ہم اس کے معنوں پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس سے بڑا کوئی طریقہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جس سے انسانی زندگی سر بلندو کامیاب ہو سکے۔ ایک فرد جو امن پسند ہے وہ نہ صرف یہ کہ خود ہی امن و سکون سے رہنا پسند کرتا ہے بلکہ وہ ہر جگہ فتنہ و فساد کو ختم کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ یہاں میں اپنے تجربہ کی بات کرتی ہوں جس گھر کی ماں، بیوی، بہن، بھاوج، دیورانی، جیٹھانی اور ساس امن پسند اور رشتوں کے تقدس کا احترام کرکے ان کو جوڑے رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہوں وہ گھر واقعی جنت کا نمونہ ہوتا ہے اور جو عورتیں تعصب، کینہ، حسد، بغض، نفرت، احساس کمتری اور شیطان فطرت ہوتی ہیں وہ نہ صرف اپنا ہی نقصان کرتی ہیں بلکہ ان تمام نسلوں کی تباہی و بربادی کا باعث بھی بنتی ہیں جو ان کے زیر سایہ یا قربت میں پرورش پاتی ہیں۔ اسی لیے قرآن نے خاص طور پر اس نکتہ کو واضح کر کے بیان کیا ہے۔ حقوق العباد میں ایک دائرہ بنتا ہے جو فرد گھر، گلی، محلہ، شہر، ملک اور پھر دنیا کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اسی لیے مومنین کی تعریف میں قرآن کا ارشاد ہے۔ ” وہ مومنوں کے لیے بڑے نرم خو ہوں گے۔ “ (المائدہ آیت 54 ) صلہ رحمی کا حکم مرد و عورت دونوں کے لیے ہے۔ پھر خوف الٰہی کا ذکر ہے خوف و خشیت میں فرق ہے۔ خشیت کا مطلب ہے اللہ کی عظمت و احترام کا خیال کرتے ہوئے اس کی ناراضگی سے ڈرتے رہنا۔ یہ مومن کی دوسری صفت بیان کی گئی ہے کہ مومن ہر قدم پر اللہ اور رسول کی مقرر کی ہوئی حدود کا احترام کرتا ہے۔ تیسری صفت مومن کی یہ ہے کہ ایسے اعمال بجا لاتے ہیں کہ ان کا حساب برا نہ ہو، یعنی مناقشہ نہ ہو کہ اللہ یہ پوچھ لے کہ تو نے ایسے کیوں کیا ؟ بلکہ آسان حساب ہو، مومن ایسے اعمال سے بچتے ہیں کہ ان کا حساب برا ہو، جبکہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ اعمال کی زبردست چھان بین کے بغیر اللہ اپنی رحمت اور فضل و کرم سے ہلکا حساب لے کر اس کی مغفرت کر دے۔ چوتھی صفت یہ ہے کہ ہر مصیبت ہر پریشانی پر واویلا کرنے کی بجائے اللہ کی رضا سمجھ کر فوراً صبر کا دامن پکڑتے ہیں۔ اس طرح ایک تو اللہ رب العزت خوش ہو کر اس کے ثواب میں اضافہ اور گناہوں میں کمی کردیتا ہے اور دوسرے اس کی تکلیف میں بھی نمایاں فرق پڑجاتا ہے۔ اس میں بالکل شک نہیں بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ پانچویں صفت یہ ہے کہ نماز قائم کرتے ہیں۔ نماز اخلاقی برائیوں کو ختم کرتی ہے اور حقوق اللہ کا رکن خاص ہے۔ نماز سے تنظیم، نفس پر قابو، یعنی شیطان کا دفع، وقت کی پابندی، روحانی اور جسمانی پاکیزگی، خشوع و خضوع کا ذریعہ، اللہ سے ملاقات کا ذریعہ اور پھر اس سے مانگنے کا بہت بڑا ذریعہ نماز ہی ہے۔ جب مومن نماز قائم کرتا ہے تو اس میں بیشمار روحانی و جسمانی قوتیں پیدا ہوجاتی ہیں جو اس کی زندگی کو چمکا کر آخرت کا راستہ آسان بنا دیتی ہے یہ یاد رہے کہ نماز پورے اخلاص اور سنت رسول کے مطابق ادا کی جائے حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ ” انسان اور کفر و شرک کے درمیان نماز کا ترک کرنا (ہی فرق) ہے۔ “ (صحیح مسلم) یعنی مسلمان نماز پڑھتا ہے اور کافر نماز نہیں پڑھتا۔ چھٹی صفت یہ ہے کہ مومن اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے زکوٰۃ و صدقات خوشی سے دیتا ہے۔ اس میں چھپا کر خرچ کرنا اور ظاہراً خرچ کرنا دونوں طریقے جائز ہیں۔ دوسروں کو ترغیب دینے کے لیے خیرات کا اعلان و اظہار جائز ہے۔ مگر جہاں لینے والے کی تذلیل ہو یا دینے والے کی نیت نمائش کی ہو تو پھر ہرگز چھپا کر ہی دینا فرض ہے ورنہ نہ وہ زکوٰۃ قبول ہوگی اور نہ ہی صدقہ و خیرات کا کوئی فائدہ ہوگا۔ حضرت عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے زکوٰۃ کی فضیلت میں فرمایا کہ ” تم میں سے کون شخص ایسا ہے جسے اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال محبوب ہو ؟ صحابہ نے عرض کی کہ ہم میں سے تو ہر ایک کو اپنا مال ہی محبوب ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اس کا مال تو وہی ہے جو اس نے (راہ خدا میں) آگے بھیج دیا اور اس کے وارث کا مال وہ ہے جسے وہ پیچھے چھوڑ جائے گا۔ “ (صحیح بخاری) ساتویں صفت یہ ہے کہ برائی کو بھلائی سے، دشمنی کو دوستی سے اور ظلم کو عفو درگزر سے رفع دفع کردیتے ہیں۔ ایک تو اس کا مطلب یہ ہے کہ برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے فراخ دلی، حسن سلوک اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب کبھی گناہ ہوجائے تو اس قدر استغفار اور عبادت کرتے ہیں کہ گناہ مٹ جاتا ہے اور معافی مل جاتی ہے۔ یہ تمام بہترین اصول کلام پاک کی ہی برکت کا نتیجہ ہیں۔ جو لوگ بھی اللہ پر بھروسا کرتے ہیں، یقین رکھتے ہیں۔ اسی کو اپنا مالک و خالق اور نجات دینے والامعبود برحق دل سے مانتے ہیں۔ قرآن و سنت پر دل و جان سے عقیدہ رکھتے ہوئے پوری کوشش سے عمل کرتے ہیں تو ان کے لیے اللہ اعلان کرتا ہے کہ ایسے متقی لوگوں کو آخرت میں ایسے اچھے بہترین ٹھکانے ملیں گے کہ جن کا بیان بیشمار مرتبہ قرآن میں آچکا ہے۔ اور پھر ان لوگوں سے اللہ کا ایک وعدہ یہ بھی ہے کہ ان لوگوں کے آباو اجداد اہل کنبہ عزیز و اقارب کو بھی ان کے اپنے اعمال سے بڑھ کر بلند درجات دیے جائیں گے شرط یہ ہے کہ وہ سچے مسلمان ہوں۔ تیسرا اعلان اور وعدہ اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندوں سے یہ کرتا ہے کہ جنت میں ہر دروازے سے فرشتے ان کو سلام کریں گے اور کہیں گے کہ یہ تمہارے صبرو استقامت اور نیکیوں کی وجہ سے درجات ملے ہیں۔ اور یہ سب انعامات کیسے لا جواب اور بہترین ہیں جن کا وعدہ اللہ نے اپنے مقبول ترین بندوں کے ساتھ کیا ہے۔
Top