Mafhoom-ul-Quran - An-Nahl : 36
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ١ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللّٰهُ وَ مِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْهِ الضَّلٰلَةُ١ؕ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ بَعَثْنَا : تحقیق ہم نے بھیجا فِيْ : میں كُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت رَّسُوْلًا : کوئی رسول اَنِ : کہ اعْبُدُوا : عبادت کرو تم اللّٰهَ : اللہ وَاجْتَنِبُوا : اور بچو الطَّاغُوْتَ : طاغوت (سرکش) فَمِنْهُمْ : سو ان میں سے بعض مَّنْ هَدَى : جسے ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : بعض حَقَّتْ : ثابت ہوگئی عَلَيْهِ : اس پر الضَّلٰلَةُ : گمراہی فَسِيْرُوْا : پس چلو پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَانْظُرُوْا : پھر دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والے
اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو۔ اور بتوں کی پوجا سے بچو، اور ان میں بعض ایسے ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض ایسے ہیں جن پر گمراہی ثابت ہوئی تو زمین پر چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔
ہدایت اور آخرت سے انکار تشریح : پیغمبر کا آنا اور کفار و مشرکین کا عذاب سے تباہ و برباد ہونا یہ سب بڑی تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔ اسی طرح حیات بعد موت کا بھی بیان ہوچکا ہے یہاں پھر وضاحت کی جا رہی ہے کیونکہ کفار اس بات پر قسمیں کھا رہے ہیں کہ ہم دوبارہ زندہ نہ ہوں گے جبکہ قرآن میں اس بات کو بار بار دہرایا جا رہا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اور قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں، اس وقت وہ تمام جو قبروں میں ہیں پھر سے زندہ کیے جائیں گے۔ ( سورة حج آیات 5 تا 7) ان آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یقینا انسانی جسم کے تمام اجزا مناسب طریقہ سے ملا کر انسان کو دوبارہ زندہ کردیا جائے گا۔ علم الابدان کے ماہر بتاتے ہیں کہ انسان کا جسم تقریباً 26 پدم خلیات (Cells) سے مل کر بنتا ہے۔ یہ سلز ٹوٹتے ختم ہوتے اور نئے وجود میں آتے رہتے ہیں ہر دس سال میں یہ تبدیلی ہوتی رہتی ہے مگر اندر کا انسان یعنی روح ویسی کی ویسی ہی رہتی ہے اور انسان ہر عمر میں اپنے آپ کو وہی پچھلا انسان محسوس کرتا ہے کیونکہ جسمانی تبدیلی تو ہوتی ہے مگر روحانی تبدیلی، یعنی تمنائیں، خیالات اور عادات نہیں بدلتیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ انسانی زندگی، جسم سے علیحدہ کوئی چیز ہے کیونکہ مرجانے پر روح قائم رہتی ہے اور قیامت کے دن اس کو حکم دیا جائے گا کہ عالم برزخ سے نکل کر اپنے مادی جسم کے ساتھ مل جائے اور دوبارہ اصل انسان کی شکل میں اللہ کے سامنے پیش ہوجائے تاکہ اس دنیا میں کیے گئے اعمال کا بدلہ پا سکے اور جان جائے کہ اللہ کا فرمان سچا اور پکا ہوتا ہے۔ اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں اس کی قدرت تو اتنی عجیب و غریب مگر مستحکم ہے کہ اس نے کن (ہو جا) کہا اور یہ اتنی بڑی کائنات وجود میں آگئی۔ پھر انسان کا ماں کے پیٹ میں وجود اسی ، ، کن فیکون، ، کا کمال ہے۔ غرض ایک ذرہ بھی اللہ کے حکم سے باہر نہیں۔ اور وہ ہر چیز پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے اور وہی قادر مطلق ہے۔
Top