Tafseer-e-Mazhari - Al-Muminoon : 20
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ١ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللّٰهُ وَ مِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْهِ الضَّلٰلَةُ١ؕ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ بَعَثْنَا : تحقیق ہم نے بھیجا فِيْ : میں كُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت رَّسُوْلًا : کوئی رسول اَنِ : کہ اعْبُدُوا : عبادت کرو تم اللّٰهَ : اللہ وَاجْتَنِبُوا : اور بچو الطَّاغُوْتَ : طاغوت (سرکش) فَمِنْهُمْ : سو ان میں سے بعض مَّنْ هَدَى : جسے ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : بعض حَقَّتْ : ثابت ہوگئی عَلَيْهِ : اس پر الضَّلٰلَةُ : گمراہی فَسِيْرُوْا : پس چلو پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَانْظُرُوْا : پھر دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والے
اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ خدا ہی کی عبادت کرو اور بتوں (کی پرستش) سے اجتناب کرو۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جن کو خدا نے ہدایت دی اور بعض ایسے ہیں جن پر گمراہی ثابت ہوئی۔ سو زمین پر چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا
ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولا ان اعبدوا اللہ واجتتنیبوا الطاغوت اور ہم نے ہر امت میں یہ پیام پہنچانے کیلئے پیغمبر کو بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور شیطان سے بچتے رہو۔ یعنی شیطان کی پیروی نہ کرو۔ وہ طاغوت ہے ‘ اللہ کی عبادت سے بہت بڑا طاغی (سرکش) ۔ فمنھم من ھدی اللہ پس ان میں سے بعض کو تو اللہ نے ہدایت یاب کردیا۔ جس کو ہدایت یاب کرنا چاہا ‘ اس کو پیغمبروں کی رہنمائی سے ایمان کی توفیق دے دی۔ ومنھم من حقت علیہ الضللۃ اور ان میں سے بعض لوگوں کیلئے (بقضائے ازلی حسب مشیّت الٰہی) گمراہی محقق ہوگئی (مضبوط ہوگئی) اللہ نے ان کو ایمان کی توفیق نہیں دی اور ان کو ہدایت یاب کرنا نہ چاہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کفر کی ہی حالت میں ان کو ہلاک کردیا ‘ ان کی بستیوں کو اجاڑ دیا ‘ ان کے محل ویران ہوگئے اور ان کے (جاگیری) کنویں بغیر مالکوں کے خالی پڑے رہ گئے۔ فیسروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبۃ المکذبین (اے گروہ قریش ! ) ذرا ملک میں چل پھر کر دیکھو کہ پیغمبروں کو جھوٹا قرار دینے والوں کا کیسا (برا) انجام ہوا۔ عاد ‘ ثمود ‘ قوم لوط اور بن والوں (یعنی قوم شعیب) کی بستیاں دیکھو۔ کافروں نے اللہ کی مشیّت اور مرضی کو ایک سمجھ رکھا تھا۔ اس خیال کا ازالہ اس آیت میں کردیا کیونکہ ان اقوام کی طرف سے تکذیب کا ارتکاب تو بمشیت خدا تھا ‘ اب اگر تکذیب ہی میں اس کی مرضی ہوتی تو ان پر عذاب نازل نہ فرماتا۔ اس سے آگے رسول اللہ ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کفار قریش پر گمراہی کی مہر اللہ کی طرف سے ثبت ہوچکی ہے ‘ آپ اپنے جی کو ہلکان نہ کریں اور ان کو ہدایت یاب بنانے کی حرص نہ کریں۔ فرمایا ہے :
Top