Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 36
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ١ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللّٰهُ وَ مِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْهِ الضَّلٰلَةُ١ؕ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ بَعَثْنَا : تحقیق ہم نے بھیجا فِيْ : میں كُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت رَّسُوْلًا : کوئی رسول اَنِ : کہ اعْبُدُوا : عبادت کرو تم اللّٰهَ : اللہ وَاجْتَنِبُوا : اور بچو الطَّاغُوْتَ : طاغوت (سرکش) فَمِنْهُمْ : سو ان میں سے بعض مَّنْ هَدَى : جسے ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : بعض حَقَّتْ : ثابت ہوگئی عَلَيْهِ : اس پر الضَّلٰلَةُ : گمراہی فَسِيْرُوْا : پس چلو پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَانْظُرُوْا : پھر دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والے
اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول اس دعوت کے ساتھ بھیجا کہ اللہ ہی کی بندگی کرو اور طاغوت سے دور رہو، سو ان میں سے کچھ وہ لوگ تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جن پر گمراہی مسلط ہو کے رہی، تم ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔
وَلَقَدْبَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ ھَدَی اللّٰہُ وَمِنْھُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰـلَۃُ ط فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ ۔ (سورۃ النحل : 36) (اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول اس دعوت کے ساتھ بھیجا کہ اللہ تعالیٰ ہی کی بندگی کرو اور طاغوت سے دور رہو، سو ان میں سے کچھ وہ لوگ تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جن پر گمراہی مسلط ہو کے رہی، تم ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ ) ہر رسول کی دعوت اللہ تعالیٰ ہی کی بندگی ہے یہ بات ثابت کرنے کے بعد کہ انسانوں کو ہدایت کا یہ طریقہ نہیں کہ انھیں زبردستی نیک یا بد بنایا جائے، یہ تو انسان کے فہم ور شعور کی توہین ہے۔ ان کی ہدایت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ رسولوں کی معرفت ہدایت اور گمراہی کو الگ الگ کردیا جائے کہ لوگ آزادانہ مرضی سے جسے چاہیں اختیار کریں، اب اسی دلیل کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم مذہب اور ہدایت کی تاریخ سے کچھ بھی واقف ہو تو تمہارے لیے یہ بات مانے بغیر چارہ نہیں کہ ہم نے ہر امت میں کوئی نہ کوئی رسولِ ہدایت بھیجا۔ جہاں تک دھرتی پانی دیتی ہے اور انسانوں کی آبادیاں موجود ہیں وہیں وہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت دینے والے آئے اور عجیب بات یہ ہے کہ ان میں بیشتر ایک دوسرے سے ناواقف تھے۔ ان کا زمانہ بھی الگ الگ تھا اور علاقہ بھی مختلف تھا۔ بایں ہمہ کس قدر حیرانی کی بات ہے کہ ہر آنے والے رسول نے ایک ہی بات کہی کہ لوگو ! اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔ اور انھوں نے پوری طرح عبادت کا مفہوم بھی واضح کیا اور طاغوت کی بھی تعریف کی کہ عبادت اس بندگی کا نام ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور شریک نہ ہو، جس میں تحلیل و تحریم صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہو، کوئی اس کی نہ صفات میں شریک ہو، نہ اس کے حقوق میں، اور نہ اس کے اختیارات میں۔ ہر شخص اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا غلام سمجھے اور اس کی آقائی اور کبریائی میں کسی کو شریک نہ کرے۔ اور طاغوت ہر وہ سرکش قوت ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنی بندگی کروانے کی کوشش کرے۔ چاہے وہ کوئی شخص ہو یا کوئی ظالمانہ نظام ہو۔ ایسے جابر حکمرانوں اور ایسے استبدادی نظاموں کی بندگی سے اجتناب اور اللہ تعالیٰ کی ہی بندگی پر اصرار یہ ہر رسول کی دعوت کے بنیادی نکات رہے ہیں۔ انصاف کی بات کہئے کہ اس دعوت کی موجودگی میں کیا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ شرک اور غلط لوگوں اور غلط نظاموں کی بندگی کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ جس سے زیادہ غلط بات دنیا میں شاید اور کوئی نہ ہو۔ قانونِ ضلالت مشیت اور رضا میں فرق واضح کردینے کے بعد مزید ایک اہم حقیقت کا انکشاف فرمایا جارہا ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک قانونِ ضلالت بھی ہے جو اس کی گرفت میں آجاتا ہے اسے ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ وہ قانونِ ضلالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خیر و شر کو سمجھنے کے لیے انسان کو عقل عطا فرمائی ہے، فہم و شعور دیا ہے اور خود فیصلہ کرنے کی آزادی دی ہے۔ جو شخص خواہشات کے اتباع میں اندھا بنا رہتا ہے اور اپنی عقل کو عقل خالص بنا کر استعمال نہیں کرتا اور یا بعض نام نہاد بڑے لوگوں کی پیروی میں اپنے آزادی کے حق سے دستبردار ہوجاتا ہے پھر انھی کی آنکھوں سے دیکھتا اور انھی کے دماغوں سے سوچتا ہے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا۔ ایسے شخص کے سامنے اللہ تعالیٰ کے رسول کی تبلیغ و دعوت بھی اپنا اثر دکھانے سے قاصر رہتی ہے۔ وہ بظاہر دعوت کا ہدف ہوتا ہے لیکن حقیقت میں اس کا دل و دماغ کسی اور کی گرفت میں ہوتا ہے۔ اس کی کیفیت بالکل ایسی ہی ہوتی ہے : میں خیال ہوں کسی اور کا، مجھے سوچتا کوئی اور ہے سرِ آئنہ مرا عکس ہے، پسِ آئنہ کوئی اور ہے جب وہ مسلسل اپنی اس روش کو قائم رکھتا ہے اور پیغمبر کی دعوت سر پٹخ کے رہ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا قانونِ ضلالت حرکت میں آتا ہے اور ہدایت سے اس کی محرومی کا فیصلہ کردیا جاتا ہے، لیکن جو شخص کھلے دل و دماغ سے خالص ارادہ لے کر پیغمبر کی دعوت کی طرف بڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے ہدایت عطا فرماتے ہیں۔ آخر میں ایک فیصلہ کن بات ارشاد فرمائی کہ مشرکینِ مکہ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ہٹ دھرمی اور جاہلیتِ قدیمہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی دلیل ہے اور ان کا پیغمبر کی دعوت کو قبول نہ کرنا صحیح طرز عمل ہے تو پھر وہ زمین میں چل پھر کے دیکھیں یعنی ان علاقوں کو دیکھیں جہاں سے ان کے قافلہ ہائے تجارت گزرتے ہیں جہاں قوم عاد اور قوم ثمود کی بستیاں ہیں جن کے کھنڈرات آج تک ان کی کہانیاں سناتے ہیں۔ ان کھنڈرات سے پوچھیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب کیوں ٹوٹا ؟ کیونکہ ان کے طرز عمل اور قریش کے طرز عمل میں کوئی فرق نہ تھا۔ وہ بھی اپنے رسولوں کے ساتھ وہی کچھ کررہے تھے جو قریش کررہے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رضا تھا تو پھر ان پر عذاب کا کوڑا کیوں برسا ؟ اس سوال کا جواب ان کی گمراہیوں کے مفہوم کو ان پر کھول دینے کے لیے کافی ہے۔
Top