Mafhoom-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 13
قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰیَةٌ فِیْ فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا١ؕ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ اُخْرٰى كَافِرَةٌ یَّرَوْنَهُمْ مِّثْلَیْهِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ
قَدْ : البتہ كَانَ : ہے لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيَةٌ : ایک نشانی فِيْ : میں فِئَتَيْنِ : دو گروہ الْتَقَتَا : وہ باہم مقابل ہوئے فِئَةٌ : ایک گروہ تُقَاتِلُ : لڑتا تھا فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ وَ : اور اُخْرٰى : دوسرا كَافِرَةٌ : کافر يَّرَوْنَھُمْ : وہ انہیں دکھائی دیتے مِّثْلَيْهِمْ : ان کے دو چند رَاْيَ الْعَيْنِ : کھلی آنکھیں وَ : اور اللّٰهُ : اللہ يُؤَيِّدُ : تائید کرتا ہے بِنَصْرِهٖ : اپنی مدد مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَعِبْرَةً : ایک عبرت لِّاُولِي الْاَبْصَارِ : دیکھنے والوں کے لیے
تمہارے لئے ان دو گروہوں میں ایک نشان عبرت تھا ( جو بدر میں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے) ۔ ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا دیکھنے والے (مؤمنین) کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ رہے تھے کہ کفار دوگنا ہیں۔ مگر اللہ اپنی قدرت سے جس کو چاہتا ہے مدد دیتا ہے۔ دیکھنے والوں (گہری نظر) کے لئے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے
غزوہ ٔ بدر میں اللہ کی مدد تشریح : اس آیت میں غزوہ بدر کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ اللہ کی نصرت اور حق و باطل کی بہت بڑی مثال گزری ہے۔ اس جنگ میں تین باتیں نہایت سبق آموز تھیں۔ -1 دونوں گروہوں کا اخلاقی فرق ظاہر تھا۔ -2 مسلمانوں کی کم تعداد اور بےسرو سامانی کفار کا تین گنا زیادہ اور مکمل اسلحہ سے لیس ہونا۔ -3، کفار کا اپنے سازو سامان اور تعداد پر ناز و نخرہ اور تکبر اور مسلمانوں کا اللہ پر بھروسہ اور کامل یقین۔ تفصیلات اس طرح ہیں اس جنگ میں کفار کی تعداد ایک ہزار تھی، سات سو اونٹ، ایک سو گھوڑے اور سب بڑے ماہر، تجربہ کار اور جنگجو تھے۔ جبکہ مسلمان صرف تین سو تیرہ، ستر اونٹ، دوگھوڑے، چھ زر ہیں اور صرف آٹھ تلواریں تھیں۔ یہ اسباب و ذرائع سے تو بہت ہی معمولی تھے مگر ایک چیز بڑی زبردست مسلمانوں کے پاس تھی اور وہ تھی کامل توکل، استقلال، اللہ کی مدد اس کے وعدے اور ایمان کی طاقت پر بھروسہ، یہ سب جذبات مسلمانوں کی نصرت اور فتح یابی کا سبب بنے۔ کیونکہ کفار کے پاس نہ تو ایمان تھا نہ وہ جذبہ، نہ توکل اور نہ ہی یقین کامل تھا ان کو اگر بھروسہ تھا تو وہ صرف اپنے سازو سامان پر اور اپنی بڑی تعداد پر اور یہی غلط جذبہ ان کی شکست کا سبب بنا۔ غرض یہ جنگ، مکہ میں کی گئی پیش گوئیوں کا ثبوت ہے اور یہ فتح سوچ سمجھ رکھنے والے لوگوں کے لئے بہت بڑی نشانی ہے۔ کفار تعداد کی زیادتی میں مست تھے جبکہ مسلمان اللہ سے دعاؤں میں اور اس کی محبت میں مست تھے۔ غزوہ بدر کی طرح کے کئی واقعات تاریخ اسلام میں ملتے ہیں۔ کیونکہ سچے مسلمان کا مقابلہ بڑا مشکل ہوتا ہے۔ مرد مومن کا تصور علامہ اقبال اس طرح پیش کرتے ہیں۔ کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زور بازو کا نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
Top