Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 13
قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰیَةٌ فِیْ فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا١ؕ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ اُخْرٰى كَافِرَةٌ یَّرَوْنَهُمْ مِّثْلَیْهِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ
قَدْ : البتہ كَانَ : ہے لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيَةٌ : ایک نشانی فِيْ : میں فِئَتَيْنِ : دو گروہ الْتَقَتَا : وہ باہم مقابل ہوئے فِئَةٌ : ایک گروہ تُقَاتِلُ : لڑتا تھا فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ وَ : اور اُخْرٰى : دوسرا كَافِرَةٌ : کافر يَّرَوْنَھُمْ : وہ انہیں دکھائی دیتے مِّثْلَيْهِمْ : ان کے دو چند رَاْيَ الْعَيْنِ : کھلی آنکھیں وَ : اور اللّٰهُ : اللہ يُؤَيِّدُ : تائید کرتا ہے بِنَصْرِهٖ : اپنی مدد مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَعِبْرَةً : ایک عبرت لِّاُولِي الْاَبْصَارِ : دیکھنے والوں کے لیے
تحقیق تمہارے لیے نشانی ہے ان دو گروہوں میں (جو بدر میں) ایک دوسرے سے نبردآزما ہوئے۔ ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا کافر تھا۔ یہ ان کو کھلم کھلا ان سے دو گنا دیکھ رہے تھے اور اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی تائید سے مدد فرماتا ہے۔ اس میں آنکھیں رکھنے والوں کے لیے بصیرت ہے
قَدْ کَانَ لَـکُمْ اٰیَۃٌ فِیْ فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا ط فِئَۃٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاُخْرٰی کَافِرَۃٌ یَّرَوْنَہُمْ مِّثْلَیْہِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ ط وَاللّٰہُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِہٖ مَنْ یَّشَآئُ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّاُوْلِی الْاَبْصَارِ ۔ (تحقیق تمہارے لیے نشانی ہے ان دو گروہوں میں { جو بدر میں } ایک دوسرے سے نبردآزما ہوئے۔ ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا کافر تھا۔ یہ ان کو کھلم کھلا ان سے دو گنا دیکھ رہے تھے اور اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی تائید سے مدد فرماتا ہے۔ اس میں آنکھیں رکھنے والوں کے لیے بصیرت ہے) ( 13) گزشتہ آیت میں دعویٰ کی دلیل سابقہ آیت کریمہ میں مخالفین کو اسلام کے غلبہ اور ان کے مغلوب ہونے کی دھمکی دی گئی ہے۔ اس آیت کریمہ میں ایک ایسے واقعہ سے اس پر دلیل پیش کی جا رہی ہے جو تھوڑا ہی عرصہ پیشتر پیش آیا تھا۔ مراد اس سے جنگ بدر کا واقعہ ہے۔ کفار کو اپنی عددی برتری اور وسائلِ جنگ کی فراوانی پر ناز تھا۔ یہی دونوں چیزیں ہمیشہ جنگ میں کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں اور یہی دونوں چیزیں کافروں کے پاس بہتات کے ساتھ تھیں اور مسلمان اس سے تہی دامن تھے۔ بدر کے واقعے سے انھیں بتایا جا رہا ہے کہ واقعہ کو غور سے دیکھو تو تمہیں صاف معلوم ہوگا کہ جن چیزوں کو تم نے کامیابی کی ضمانت سمجھ رکھا تھا، بدر میں وہ دونوں چیزیں کام نہیں آئیں۔ اس جنگ میں قریش کا لشکر ساڑھے نو سو (950) مردانِ جنگی پر مشتمل تھا اور وسائلِ جنگ کی ان کے پاس فراوانی تھی۔ اسلحہ جنگ کی کوئی کمی نہ تھی ‘ رسد اور کمک کے انتظامات مکمل تھے اور ان کے مقابلے میں مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ ان کی صفوں میں صرف تین سو تیرہ (313) آدمی تھے۔ اسلحہ جنگ میں ان کے پاس صرف آٹھ تلواریں ‘ دو گھوڑے اور چھ زرہیں تھیں۔ اللہ کے ان عظیم بندوں میں ایسے بھی تھے جن کے تن پر قمیض نہ تھی۔ اکثریت کے ہاتھوں میں شمشیریں یا کمانیں تھیں اور بعض ایسے مجاہد بھی تھے جو بالکل خالی ہاتھ تھے اور انھوں نے درختوں سے تنے توڑ کر اپنے لیے لاٹھیاں تیار کی تھیں۔ ایک صحابی نے آپ ﷺ سے خالی ہاتھ ہونے کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے ایک لکڑی کا تختہ اٹھا کے دیا جو ان کے ہاتھ میں پہنچ کر ایک چمکتی ہوئی تلوار بن گیا۔ اس بےسروسامانی کے باوجود جب مقابلہ ہوا تو قلت کثرت پر غالب آگئی۔ نہتے لوگوں نے مسلح لوگوں کی کمر توڑ دی۔ جنگ میں کامیابی کے تمام مسلمہ اصول دھرے رہ گئے۔ اس واقعے میں سب سے بڑی نشانی یہ تھی کہ میدانِ جنگ میں فتح و شکست افرادی قوت اور اسلحہ جنگ میں کمی بیشی سے نہیں ہوتی ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے ہوتی ہے اور یہ تائید و نصرت ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو اللہ کے راستے میں ‘ اللہ کا جھنڈا بلند کرنے کے لیے نکلتے ہیں۔ فتح اس گروہ کو ہوتی ہے جو اخلاقی اقدار کا علمبردار ہوتا ہے ‘ جن کا بھروسہ صرف اللہ کی ذات پہ ہوتا ہے ‘ وہ اپنی قلت تعداد اور بےسروسامانی کے باوجود ہراساں نہیں ہوتے بلکہ اللہ کے بھروسے پر میدان میں استقامت دکھاتے ہیں اور ان کا استقلال اور توکل اللہ سے انعام لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ ان دونوں گروہوں میں اصل فرق یہی تھا۔ ایک طرف قریش مکہ کے لشکر میں شرابوں کے دور چل رہے تھے ‘ ناچنے اور گانے والی لونڈیاں ساتھ آئی تھیں اور خوب داد عیش دی جارہی تھی اور اپنی قوت اور برتری کے اظہار کے دعوے تھے ‘ لیکن دوسری طرف مسلمانوں میں پرہیزگاری تھی ‘ خدا ترسی تھی ‘ انتہا درجے کا اخلاقی انضباط تھا ‘ نمازیں تھیں اور روزے تھے ‘ زبان پر اللہ کا نام تھا ‘ اسی سے دعائیں مانگی جا رہی تھیں ‘ اسی سے التجائیں ہو رہی تھیں ‘ دل اسی کی امید سے لبریز تھے۔ ان دونوں لشکروں میں یہ فرق ایمان اور اخلاق کا تھا جس نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلحہ جنگ اور افرادی قوت میں اگر کمی بھی ہو ‘ لیکن اللہ سے تعلق اور تعمیل احکام میں کوئی کمی نہ ہو تو قلت تعداد اور بےسروسامانی کی تلافی اللہ کی تائید و نصرت سے ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر ایمان میں کمزوری اور کردار میں کجی ہو تو اس کی تلافی کسی صورت ممکن نہیں ہوتی۔ میدانِ جنگ میں وہی قومیں غالب آتی ہیں ‘ جو اپنے سیرت و کردار اور حوصلوں میں زندہ ہوتی ہیں اور اسلحہ جنگ کی تیاری میں بھی مقدور بھر کوتاہی نہیں کرتیں ‘ لیکن کوشش کے باوجود بھی اگر اللہ والے بےسروسامانی کا شکار ہوجاتے ہیں تو اللہ کے فرشتے ان کی مدد کے لیے آجاتے ہیں۔ اسی بات کو قرآن کریم نے دونوں جماعتوں کے تعارف کے طور پر نہایت اعجاز اور ایجاز کے ساتھ ذکر فرمایا فِئَۃٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاُخْرٰی کَافِرَۃٌ قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ دو مقابل باتوں میں سے ایک مقابل کو اختصار کے لیے بالعموم حذف کردیا جاتا ہے کیونکہ مذکور لفظ محذوف کی طرف رہنمائی کر رہا ہوتا ہے۔ یہاں بھی اسی اسلوب کے تحت اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ اصل عبارت اس طرح ہے فِئْۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ تُقَاتِلُ فِیْ سِبِیْلِ اللّٰہِ وَاُخْرٰی کَافِرَۃٌ تَقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ پہلے جملے میں لفظ ” مؤمنۃ “ کو حذف کیا گیا اور دوسرے جملے میں فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِکو حذف کیا گیا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ مومن گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا کافر گروہ طاغوت کے راستے میں لڑ رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ جو اللہ کے راستے میں لڑنے والا گروہ ہے اس کا تعلق یقینا اپنے اللہ سے ہوگا۔ وہ اللہ ہی کے کلمے کی سربلندی کے لیے لڑے گا۔ اس کا بھروسہ اسی کی ذات پر ہوگا اور وہ اپنے کسی عمل سے بھی اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرے گا اور دوسرا گروہ جو طاغوت اور لا دینیت کے راستے میں لڑے گا وہ نہ جانے کس کس کا جھنڈا بلند کرنے کی کوشش کرے گا اور وہ چونکہ بنیادی طور پر بندہ نفس ہوگا ‘ اس لیے اس کا ایک ایک عمل تمرد ‘ غرور اور سرکشی کی تصویر ہوگا اور یہ دونوں گروہ جب آپس میں ٹکرائیں گے تو اللہ کی تائیدو نصرت پہلے گروہ کے ساتھ ہوگی۔ اس کی نصرت اور تائید کے سو طریقے ہیں ‘ لیکن وہ سارے طریقے صرف مسلمانوں کے حوصلے توانا کرنے کے لیے ہیں ورنہ مدد تو صرف اللہ کی جانب سے آتی ہے۔ فرشتوں کا اترنا بھی اسی کی طرف سے ہوتا ہے اور حالات کی سازگاری بھی اسی کے حکم سے ہوتی ہے۔ لیکن وہ تائید و نصرت جو جنگ کا نقشہ بدلتی ہے وہ بطور خاص اللہ کی جانب سے آتی ہے۔ تائید و نصرت کی ایک مثال تائید و نصرت کے ظاہری اسباب میں سے ایک کا یہاں ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگ انھیں ان کی اصل تعداد سے دو گنا دیکھ رہے تھے۔ مفسرین نے اس میں اختلاف کیا ہے کہ یَرَوْنَ کا فاعل کون ہے۔ اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس کا فاعل مسلمان ہیں۔ وہ قریش مکہ کے لشکر کی تعداد کو جو کہ اس سے تین گنا تھی ‘ دو گنا دیکھ رہے تھے۔ لیکن بعض محققین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ یَرَوْنَ کا فاعل قریش مکہ تھے۔ وہ مسلمانوں کو ان کی اصل تعداد سے یا اپنے آپ سے دو گنا دیکھ رہے تھے۔ یہ اللہ کی جانب سے تائید و نصرت کی پہلی شکل تھی کہ قریش مکہ جو عددی برتری کے زعم میں یہاں پہنچے تھے ‘ جب انھوں نے میدانِ جنگ میں مسلمانوں کو دیکھا تو انھوں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کی تعداد ان سے دو گنا ہے۔ کافر چونکہ ہمیشہ اسباب و وسائل کی جنگ لڑتا ہے اس لیے جہاں بھی اسے وسائل نظر آتے ہیں اور اسباب کی کثرت دکھائی دیتی ہے وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اس نے مسلمانوں کو اتنی بڑی تعداد میں دیکھا تو اس کے حوصلے چھوٹ گئے۔ ممکن ہے بعض لوگ ایک شبہ کا اظہار کریں ‘ وہ یہ کہ سورة انفال میں پروردگار نے یہ فرمایا ہے کہ غزوہ بدر میں کفار بھی مسلمانوں کی نظر میں کم کر کے دکھائے گئے تھے اور مسلمان بھی کفار کی نظر میں کم دکھائے گئے تھے اور یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کو دو چند دیکھا تو ان دونوں باتوں میں تضاد معلوم ہوتا ہے۔ حقیقت دراصل یہ ہے کہ میدانِ جنگ میں اترنے سے پہلے جب دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو دونوں کو اپنا حریف کم تر نظر آیا۔ مسلمانوں نے کفار کی تعداد کم دیکھی اور کفار نے مسلمانوں کی تعداد۔ اس کی وجہ قرآن کریم نے یہ بیان کی ہے کہ دونوں کو دوسرے کی تعداد اس لیے کم دکھائی گئی تاکہ دونوں فریق ایک دوسرے سے لڑنے اور جھپٹنے کے لیے دلیر ہوجائیں اور اگر ان کو واقعی ویسا ہی دکھایا جاتا یا قریش کو پہلے مسلمانوں کو زیادہ دکھا دیا جاتاتو ممکن تھا کہ کوئی ایک فریق میدانِ جنگ چھوڑ دیتا جبکہ اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ آج اس میدان میں حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا واضح کردیا جائے۔ لیکن جب دونوں فوجیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں تو اب چونکہ بھاگنے کا مرحلہ تو گزر چکا تھا اب تو تصادم شروع ہوچکا تھا اب ضرورت اس بات کی تھی کہ مسلمانوں کی تائید و نصرت کے لیے کافروں کی نگاہوں میں مسلمانوں کی تعداد کو زیادہ دکھایا جائے تاکہ وہ مرعوب ہو کر حوصلہ چھوڑ دیں۔ تو آیات انفال میں جس موقع و محل کا ذکر ہے وہ جنگ شروع ہونے سے پہلے کا ہے اور پیش نظر آیت کریمہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد کا ہے جب تائید الٰہی ملائکہ کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ ممکن ہے کہ انھیں ملائکہ کی شکلیں دکھائی گئی ہوں تو جب انھوں نے مسلمانوں کو بھی دیکھا اور ملائکہ کو بھی تو اس صورت میں مسلمانوں کی تعداد ان کو اصل تعداد سے بہت زیادہ معلوم ہوئی۔ آخر میں فرمایا کہ اس واقعے میں دیدہ بینا رکھنے والوں کے لیے بہت سبق پوشیدہ ہیں۔ وہ جتنا اس بات پر غور کریں گے ان دونوں گروہوں کے بارے میں انھیں نئے سے نیا سامانِ عبرت حاصل ہوگا۔
Top