Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 13
قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰیَةٌ فِیْ فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا١ؕ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ اُخْرٰى كَافِرَةٌ یَّرَوْنَهُمْ مِّثْلَیْهِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ
قَدْ
: البتہ
كَانَ
: ہے
لَكُمْ
: تمہارے لیے
اٰيَةٌ
: ایک نشانی
فِيْ
: میں
فِئَتَيْنِ
: دو گروہ
الْتَقَتَا
: وہ باہم مقابل ہوئے
فِئَةٌ
: ایک گروہ
تُقَاتِلُ
: لڑتا تھا
فِيْ
: میں
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کی راہ
وَ
: اور
اُخْرٰى
: دوسرا
كَافِرَةٌ
: کافر
يَّرَوْنَھُمْ
: وہ انہیں دکھائی دیتے
مِّثْلَيْهِمْ
: ان کے دو چند
رَاْيَ الْعَيْنِ
: کھلی آنکھیں
وَ
: اور
اللّٰهُ
: اللہ
يُؤَيِّدُ
: تائید کرتا ہے
بِنَصْرِهٖ
: اپنی مدد
مَنْ
: جسے
يَّشَآءُ
: وہ چاہتا ہے
اِنَّ
: بیشک
فِيْ
: میں
ذٰلِكَ
: اس
لَعِبْرَةً
: ایک عبرت
لِّاُولِي الْاَبْصَارِ
: دیکھنے والوں کے لیے
تحقیق تمہارے لیے نشانی ہے ان دو گروہوں میں (جو بدر میں) ایک دوسرے سے نبردآزما ہوئے۔ ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا کافر تھا۔ یہ ان کو کھلم کھلا ان سے دو گنا دیکھ رہے تھے اور اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی تائید سے مدد فرماتا ہے۔ اس میں آنکھیں رکھنے والوں کے لیے بصیرت ہے
قَدْ کَانَ لَـکُمْ اٰیَۃٌ فِیْ فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا ط فِئَۃٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاُخْرٰی کَافِرَۃٌ یَّرَوْنَہُمْ مِّثْلَیْہِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ ط وَاللّٰہُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِہٖ مَنْ یَّشَآئُ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّاُوْلِی الْاَبْصَارِ ۔ (تحقیق تمہارے لیے نشانی ہے ان دو گروہوں میں { جو بدر میں } ایک دوسرے سے نبردآزما ہوئے۔ ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا کافر تھا۔ یہ ان کو کھلم کھلا ان سے دو گنا دیکھ رہے تھے اور اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی تائید سے مدد فرماتا ہے۔ اس میں آنکھیں رکھنے والوں کے لیے بصیرت ہے) ( 13) گزشتہ آیت میں دعویٰ کی دلیل سابقہ آیت کریمہ میں مخالفین کو اسلام کے غلبہ اور ان کے مغلوب ہونے کی دھمکی دی گئی ہے۔ اس آیت کریمہ میں ایک ایسے واقعہ سے اس پر دلیل پیش کی جا رہی ہے جو تھوڑا ہی عرصہ پیشتر پیش آیا تھا۔ مراد اس سے جنگ بدر کا واقعہ ہے۔ کفار کو اپنی عددی برتری اور وسائلِ جنگ کی فراوانی پر ناز تھا۔ یہی دونوں چیزیں ہمیشہ جنگ میں کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں اور یہی دونوں چیزیں کافروں کے پاس بہتات کے ساتھ تھیں اور مسلمان اس سے تہی دامن تھے۔ بدر کے واقعے سے انھیں بتایا جا رہا ہے کہ واقعہ کو غور سے دیکھو تو تمہیں صاف معلوم ہوگا کہ جن چیزوں کو تم نے کامیابی کی ضمانت سمجھ رکھا تھا، بدر میں وہ دونوں چیزیں کام نہیں آئیں۔ اس جنگ میں قریش کا لشکر ساڑھے نو سو (950) مردانِ جنگی پر مشتمل تھا اور وسائلِ جنگ کی ان کے پاس فراوانی تھی۔ اسلحہ جنگ کی کوئی کمی نہ تھی ‘ رسد اور کمک کے انتظامات مکمل تھے اور ان کے مقابلے میں مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ ان کی صفوں میں صرف تین سو تیرہ (313) آدمی تھے۔ اسلحہ جنگ میں ان کے پاس صرف آٹھ تلواریں ‘ دو گھوڑے اور چھ زرہیں تھیں۔ اللہ کے ان عظیم بندوں میں ایسے بھی تھے جن کے تن پر قمیض نہ تھی۔ اکثریت کے ہاتھوں میں شمشیریں یا کمانیں تھیں اور بعض ایسے مجاہد بھی تھے جو بالکل خالی ہاتھ تھے اور انھوں نے درختوں سے تنے توڑ کر اپنے لیے لاٹھیاں تیار کی تھیں۔ ایک صحابی نے آپ ﷺ سے خالی ہاتھ ہونے کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے ایک لکڑی کا تختہ اٹھا کے دیا جو ان کے ہاتھ میں پہنچ کر ایک چمکتی ہوئی تلوار بن گیا۔ اس بےسروسامانی کے باوجود جب مقابلہ ہوا تو قلت کثرت پر غالب آگئی۔ نہتے لوگوں نے مسلح لوگوں کی کمر توڑ دی۔ جنگ میں کامیابی کے تمام مسلمہ اصول دھرے رہ گئے۔ اس واقعے میں سب سے بڑی نشانی یہ تھی کہ میدانِ جنگ میں فتح و شکست افرادی قوت اور اسلحہ جنگ میں کمی بیشی سے نہیں ہوتی ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے ہوتی ہے اور یہ تائید و نصرت ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو اللہ کے راستے میں ‘ اللہ کا جھنڈا بلند کرنے کے لیے نکلتے ہیں۔ فتح اس گروہ کو ہوتی ہے جو اخلاقی اقدار کا علمبردار ہوتا ہے ‘ جن کا بھروسہ صرف اللہ کی ذات پہ ہوتا ہے ‘ وہ اپنی قلت تعداد اور بےسروسامانی کے باوجود ہراساں نہیں ہوتے بلکہ اللہ کے بھروسے پر میدان میں استقامت دکھاتے ہیں اور ان کا استقلال اور توکل اللہ سے انعام لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ ان دونوں گروہوں میں اصل فرق یہی تھا۔ ایک طرف قریش مکہ کے لشکر میں شرابوں کے دور چل رہے تھے ‘ ناچنے اور گانے والی لونڈیاں ساتھ آئی تھیں اور خوب داد عیش دی جارہی تھی اور اپنی قوت اور برتری کے اظہار کے دعوے تھے ‘ لیکن دوسری طرف مسلمانوں میں پرہیزگاری تھی ‘ خدا ترسی تھی ‘ انتہا درجے کا اخلاقی انضباط تھا ‘ نمازیں تھیں اور روزے تھے ‘ زبان پر اللہ کا نام تھا ‘ اسی سے دعائیں مانگی جا رہی تھیں ‘ اسی سے التجائیں ہو رہی تھیں ‘ دل اسی کی امید سے لبریز تھے۔ ان دونوں لشکروں میں یہ فرق ایمان اور اخلاق کا تھا جس نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلحہ جنگ اور افرادی قوت میں اگر کمی بھی ہو ‘ لیکن اللہ سے تعلق اور تعمیل احکام میں کوئی کمی نہ ہو تو قلت تعداد اور بےسروسامانی کی تلافی اللہ کی تائید و نصرت سے ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر ایمان میں کمزوری اور کردار میں کجی ہو تو اس کی تلافی کسی صورت ممکن نہیں ہوتی۔ میدانِ جنگ میں وہی قومیں غالب آتی ہیں ‘ جو اپنے سیرت و کردار اور حوصلوں میں زندہ ہوتی ہیں اور اسلحہ جنگ کی تیاری میں بھی مقدور بھر کوتاہی نہیں کرتیں ‘ لیکن کوشش کے باوجود بھی اگر اللہ والے بےسروسامانی کا شکار ہوجاتے ہیں تو اللہ کے فرشتے ان کی مدد کے لیے آجاتے ہیں۔ اسی بات کو قرآن کریم نے دونوں جماعتوں کے تعارف کے طور پر نہایت اعجاز اور ایجاز کے ساتھ ذکر فرمایا فِئَۃٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاُخْرٰی کَافِرَۃٌ قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ دو مقابل باتوں میں سے ایک مقابل کو اختصار کے لیے بالعموم حذف کردیا جاتا ہے کیونکہ مذکور لفظ محذوف کی طرف رہنمائی کر رہا ہوتا ہے۔ یہاں بھی اسی اسلوب کے تحت اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ اصل عبارت اس طرح ہے فِئْۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ تُقَاتِلُ فِیْ سِبِیْلِ اللّٰہِ وَاُخْرٰی کَافِرَۃٌ تَقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ پہلے جملے میں لفظ ” مؤمنۃ “ کو حذف کیا گیا اور دوسرے جملے میں فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِکو حذف کیا گیا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ مومن گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا کافر گروہ طاغوت کے راستے میں لڑ رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ جو اللہ کے راستے میں لڑنے والا گروہ ہے اس کا تعلق یقینا اپنے اللہ سے ہوگا۔ وہ اللہ ہی کے کلمے کی سربلندی کے لیے لڑے گا۔ اس کا بھروسہ اسی کی ذات پر ہوگا اور وہ اپنے کسی عمل سے بھی اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرے گا اور دوسرا گروہ جو طاغوت اور لا دینیت کے راستے میں لڑے گا وہ نہ جانے کس کس کا جھنڈا بلند کرنے کی کوشش کرے گا اور وہ چونکہ بنیادی طور پر بندہ نفس ہوگا ‘ اس لیے اس کا ایک ایک عمل تمرد ‘ غرور اور سرکشی کی تصویر ہوگا اور یہ دونوں گروہ جب آپس میں ٹکرائیں گے تو اللہ کی تائیدو نصرت پہلے گروہ کے ساتھ ہوگی۔ اس کی نصرت اور تائید کے سو طریقے ہیں ‘ لیکن وہ سارے طریقے صرف مسلمانوں کے حوصلے توانا کرنے کے لیے ہیں ورنہ مدد تو صرف اللہ کی جانب سے آتی ہے۔ فرشتوں کا اترنا بھی اسی کی طرف سے ہوتا ہے اور حالات کی سازگاری بھی اسی کے حکم سے ہوتی ہے۔ لیکن وہ تائید و نصرت جو جنگ کا نقشہ بدلتی ہے وہ بطور خاص اللہ کی جانب سے آتی ہے۔ تائید و نصرت کی ایک مثال تائید و نصرت کے ظاہری اسباب میں سے ایک کا یہاں ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگ انھیں ان کی اصل تعداد سے دو گنا دیکھ رہے تھے۔ مفسرین نے اس میں اختلاف کیا ہے کہ یَرَوْنَ کا فاعل کون ہے۔ اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس کا فاعل مسلمان ہیں۔ وہ قریش مکہ کے لشکر کی تعداد کو جو کہ اس سے تین گنا تھی ‘ دو گنا دیکھ رہے تھے۔ لیکن بعض محققین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ یَرَوْنَ کا فاعل قریش مکہ تھے۔ وہ مسلمانوں کو ان کی اصل تعداد سے یا اپنے آپ سے دو گنا دیکھ رہے تھے۔ یہ اللہ کی جانب سے تائید و نصرت کی پہلی شکل تھی کہ قریش مکہ جو عددی برتری کے زعم میں یہاں پہنچے تھے ‘ جب انھوں نے میدانِ جنگ میں مسلمانوں کو دیکھا تو انھوں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کی تعداد ان سے دو گنا ہے۔ کافر چونکہ ہمیشہ اسباب و وسائل کی جنگ لڑتا ہے اس لیے جہاں بھی اسے وسائل نظر آتے ہیں اور اسباب کی کثرت دکھائی دیتی ہے وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اس نے مسلمانوں کو اتنی بڑی تعداد میں دیکھا تو اس کے حوصلے چھوٹ گئے۔ ممکن ہے بعض لوگ ایک شبہ کا اظہار کریں ‘ وہ یہ کہ سورة انفال میں پروردگار نے یہ فرمایا ہے کہ غزوہ بدر میں کفار بھی مسلمانوں کی نظر میں کم کر کے دکھائے گئے تھے اور مسلمان بھی کفار کی نظر میں کم دکھائے گئے تھے اور یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کو دو چند دیکھا تو ان دونوں باتوں میں تضاد معلوم ہوتا ہے۔ حقیقت دراصل یہ ہے کہ میدانِ جنگ میں اترنے سے پہلے جب دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو دونوں کو اپنا حریف کم تر نظر آیا۔ مسلمانوں نے کفار کی تعداد کم دیکھی اور کفار نے مسلمانوں کی تعداد۔ اس کی وجہ قرآن کریم نے یہ بیان کی ہے کہ دونوں کو دوسرے کی تعداد اس لیے کم دکھائی گئی تاکہ دونوں فریق ایک دوسرے سے لڑنے اور جھپٹنے کے لیے دلیر ہوجائیں اور اگر ان کو واقعی ویسا ہی دکھایا جاتا یا قریش کو پہلے مسلمانوں کو زیادہ دکھا دیا جاتاتو ممکن تھا کہ کوئی ایک فریق میدانِ جنگ چھوڑ دیتا جبکہ اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ آج اس میدان میں حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا واضح کردیا جائے۔ لیکن جب دونوں فوجیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں تو اب چونکہ بھاگنے کا مرحلہ تو گزر چکا تھا اب تو تصادم شروع ہوچکا تھا اب ضرورت اس بات کی تھی کہ مسلمانوں کی تائید و نصرت کے لیے کافروں کی نگاہوں میں مسلمانوں کی تعداد کو زیادہ دکھایا جائے تاکہ وہ مرعوب ہو کر حوصلہ چھوڑ دیں۔ تو آیات انفال میں جس موقع و محل کا ذکر ہے وہ جنگ شروع ہونے سے پہلے کا ہے اور پیش نظر آیت کریمہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد کا ہے جب تائید الٰہی ملائکہ کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ ممکن ہے کہ انھیں ملائکہ کی شکلیں دکھائی گئی ہوں تو جب انھوں نے مسلمانوں کو بھی دیکھا اور ملائکہ کو بھی تو اس صورت میں مسلمانوں کی تعداد ان کو اصل تعداد سے بہت زیادہ معلوم ہوئی۔ آخر میں فرمایا کہ اس واقعے میں دیدہ بینا رکھنے والوں کے لیے بہت سبق پوشیدہ ہیں۔ وہ جتنا اس بات پر غور کریں گے ان دونوں گروہوں کے بارے میں انھیں نئے سے نیا سامانِ عبرت حاصل ہوگا۔
Top