Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 72
وَ قَالَتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَ اكْفُرُوْۤا اٰخِرَهٗ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَۚۖ
وَقَالَتْ : اور کہا طَّآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْ : سے (کی) اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اٰمِنُوْا : تم مان لو بِالَّذِيْٓ : جو کچھ اُنْزِلَ : نازل کیا گیا عَلَي : پر الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مسلمان) وَجْهَ النَّهَارِ : اول حصہ دن وَاكْفُرُوْٓا : اور منکر ہوجاؤ اٰخِرَهٗ : اس کا آخر (شام) لَعَلَّھُمْ : شاید وہ يَرْجِعُوْنَ : وہ پھرجائیں
اور اہل کتاب کا ایک گروہ کہتا ہے،163 ۔ کہ ایمان لانے والوں پر جو نازل ہوا ہے اس پر صبح کو ایمان لاؤ اور دن کے آخر میں اس سے انکار کربیٹھو، عجب کیا کہ (وہ بھی) پھرجائیں،164 ۔
163 ۔ (آپس میں) قال بعضھم لبعض (قرطبی) فی مابینھم (مدارک) یہ اشارہ ہے یہود خیبر وعرینہ کی جانب۔ کان احبار قری عرینۃ اثنی عشر حبرا فقالوا لبعضھم ادخلوا فی دین محمد اول النھار فاذا کان اخر النھار فاکفروا (بن جریر) 164 ۔ (اس چال اور تدبیر سے) (آیت) ” امنوا وجہ النھار۔ یہاں ایمان اظہار ایمان کے معنی میں ہے یعنی صبح ایمان ظاہر کرو، ای اظھروا الایمان (کشاف) ادخلوا فی دین محمد باللسان دون الاعتقاد (معالم عن الحسن وقتادۃ) والمراد اظھروا الایمان ولا یمکن ان یرادبہ التصدیق (بحر) وجہ النھار یعنی اولہ (قرطبی) (آیت) ” انزل علی الذین امنوا “۔ یعنی جو ان مومنین کے خیال میں ان پر نازل ہوا ہے۔ ای علی زعمھم (بحر) (آیت) ” لعلھم “۔ ضمیر ان لوگوں کی جانب ہے جو واقعۃ مسلمان تھے مدینہ ومضافات مدینہ کے یہود کی چالیں مسلمانوں کے خلاف عجیب عجیب رہتی تھیں ایک بار آپس میں صلاح ومشورہ کے بعد یہ سوچا کہ ہم میں بعض صبح کے وقت صداقت اسلام کا اقرار کرلیا کریں اور پھر چند گھنٹوں کے بعد اس نئے دین کی تصدیق نہ ہوئی اس لیے ہم اس سے نکل آئے ہیں۔ اہل عرب پر ہمارے علم واخلاق دونوں کی دھاک تو بیٹھی ہی ہوئی ہے لوگ کہیں گے آخر کوئی خرابی تو اس نئے دین میں ہے جو ایسے ایسے لوگ اس سے باہر نکل گئے اور عجب نہیں کہ اس تدبیر سے کچھ پرانے مسلمان بھی اکھڑجائیں۔ تاریخ یہود میں منافقت کی یہی ایک مثال نہیں خود ان کی کتابوں میں یہ واقعہ بہ صراحت درج ہے کہ بارھویں صدی عیسوی میں جب اسپین میں اسلامی حکومت تھی تو حکومت کے ” مظالم “ فرضی یا واقعی کی بنا پر بہت سے یہود نے اپنے ربیون کی اجازت اور فتوی کے مطابق اپنے قبول اسلام کا اظہار شروع کردیا تھا درآنحالیکہ دل میں سب کے سب منکر ہی تھے (جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد اول 432، 433) اور آج یہ جو بڑے بڑے فرنگی محققین یہود ومسیحی مستشرقین نے فرنگی زبانوں میں سیرۃ نبوی لکھنے کا طریقہ یہ اختیار کیا ہے کہ اپنے علم وتحقیق، و سعت مشرب وبے تعصبی کی دھاک بٹھا کر تمہید بڑے زور کی اٹھاتے ہیں اور معلوم یہی ہونے لگتا ہے کہ پیغمبر عرب اور مصلح عالم کی نعت اور مقنن اعظم اور ” تمثیل موسیٰ “۔ کی منقبت میں دریا کے دریا بہادیں گے لیکن آگے چل کر نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ نعوذ باللہ انہیں کچھ خلل دماغ سا تھا، یا یہود ونصاری کی کتابوں کے مضامین کہیں سے سن سنا کر چرا لیتے تھے وقس علی ہذا۔ تو یہ بھی ٹھیک اسی قدیم یہود یا نہ دجل وتلبیس کا ایک جدید فرنگی نمونہ ہے اور بس۔
Top