Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 67
وَ مِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِیْلِ وَ الْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْهُ سَكَرًا وَّ رِزْقًا حَسَنًا١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
وَ : اور مِنْ : سے ثَمَرٰتِ : پھل (جمع) النَّخِيْلِ : کھجور وَالْاَعْنَابِ : اور انگور تَتَّخِذُوْنَ : تم بناتے ہو مِنْهُ : اس سے سَكَرًا : شراب وَّرِزْقًا : اور رزق حَسَنًا : اچھا اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيَةً : نشانی لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْقِلُوْنَ : عقل رکھتے ہیں
اور کھجوروں اور انگوروں کے پھلوں میں (بھی تمہارے لئے سبق ہے) تم ان سے نشہ کی چیزیں اور کھانے کی عمدہ چیزیں بناتے ہو بیشک اس میں (بڑی) نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں،98۔
98۔ (کہ ایک ہی مادہ سے کہاں ایک طرف مسکرات جیسی گندی چیزیں تیار کردیں اور کہاں دوسری طرف لطیف وپاکیزہ مشروبات وماکولات، عرق، شربت، مربے وغیرہ) (آیت) ” سکرا ورزقا حسنا “۔ گویا ایک ہی مادہ میں سم وتریاق دونوں کی خاصیتیں رکھ دیں۔ (آیت) ” النخیل والاعناب “۔ انگور اور کھجور دونوں کی شرابیں مشہور شرابیں ہیں، عرب میں بھی مشہور تھیں، اور آج یورپ میں بھی مشہور ہیں۔ (آیت) ” سکرا “۔ سکر کے لفظ پر سوال پیدا ہوا ہے کہ نشہ کا ذکر محل مدح پر قرآن مجید نے کیسے کردیا ؟۔ جواب یہ ہے کہ اول تو یہاں مقصود مدح نہیں۔ بلکہ ذکر صرف اس کا ہے کہ خرمے اور انگور سے فلاں فلاں کام لئے جاسکتے ہیں، اور مخاطب صرف مومنین نہیں، بلکہ کافر بھی شامل ہیں، اور وہ برابر ان پھلوں سے نشہ کا کام لیتے رہتے ہیں، اس لئے اس ذکر میں مطلق مضائقہ نہیں، دوسرے یہ کہ آیت مکی ہے، اور نشہ کی حرمت اس وقت تک ہوئی نہیں تھی، اس پر بھی قرآن مجید نے سکر کو رزق حسن سے علیحدہ وممتاز کرکے ظاہر کردیا، کہ یہ دو بالکل مختلف قسم کے کام انہیں پھلوں سے لئے جاسکتے ہیں۔
Top