Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 66
وَ اِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً١ؕ نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَیْنِ فَرْثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ
وَاِنَّ : اور بیشک لَكُمْ : تمہارے لیے فِي : میں الْاَنْعَامِ : چوپائے لَعِبْرَةً : البتہ عبرت نُسْقِيْكُمْ : ہم پلاتے ہیں تم کو مِّمَّا : اس سے جو فِيْ : میں بُطُوْنِهٖ : ان کے پیٹ (جمع) مِنْ : سے بَيْنِ : درمیان فَرْثٍ : گوبر وَّدَمٍ : اور خون لَّبَنًا : دودھ خَالِصًا : خالص سَآئِغًا : خوشگوار لِّلشّٰرِبِيْنَ : پینے والوں کے لیے
اور بیشک تمہارے لئے مویشیوں میں بھی بڑا سبق ہے،96۔ ان کے پیٹ میں جو کچھ ہوتا ہے گوبر اور خون (کے قسم) سے اس کے درمیان سے صاف اور پینے والوں کے لئے خوشگوار دودھ ہم تمہیں پینے کو دیتے ہیں،97۔
96۔ ان گھریلو جانوروں کی ساخت و ترکیب اور ان کے اعضاء کے افعال میں جو صدہا عجائب ہیں، ان کی تفصیلات بیالوجی (حیاتیات) اور زوآلوجی (حیوانیات) کے ہر ماہر پر روشن ہیں۔ یہ سب صناعیاں اور حکمتیں پتہ کس چیز کا دیتی ہیں ؟ ایک صناع اعظم کا، ایک حکیم مطلق کا (آیت) ” لعبرۃ “۔ عبرۃ کہتے ہیں معلوم سے مجہول اور مشاہد سے غیر مشاہد تک پہنچنے کو والعبرۃ مختصہ بالحالۃ التی یتوصل بھا من معرفۃ المشاھد الی ما لیس بمشاھد (راغب) 97۔ جہاں سے گوبر اور خون وغیرہ گندی چیزیں اور فضلے پیدا ہوتے ہیں، وہیں سے دودھ جیسی نفیس پاکیزہ نعمت انسان کے لیے تیار کردینا جس کے آگے بڑے سے بڑے کیمیا دان اور کیمیا ساز مع اپنی ساری تجربی کار گاہوں کے دنگ رہ جائیں، اگر ایک کھلی ہوئی دلیل ایک صناع اعظم کے وجود پر نہیں، تو اور کیا ہے ؟ (آیت) ” بطونہ “۔ میں ضمیر واحد مذکر غائب اس چیز کے لئے ہے، جس کا ذکر اوپر آچکا ہے، اور یہ معنی لے کر (آیت) ” انعام “ کے لئے بجائے مؤنث کے ضمیر مذکر واحد جائز ہے۔ کسائی اور مبرد نے یہی کہا ہے، اور قرآن مجید ہی سے اس کی سندیں پیش کی ہیں۔ اے فی بطون ما ذکرنا وھذا جواب الکسائی قال المبرد ھذا شائع فی القران (کبیر) (آیت) ” سآئغا “۔ سائغ وہ مشروب ہے جو لذت یا آسانی کے ساتھ حلق سے اترے۔ معناہ جاریا فی حلوقھم لذیذا ھنیئا (کبیر) سھل المرور فی الحلق (کشاف)
Top