Tafseer-e-Majidi - Al-Kahf : 78
قَالَ هٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَ بَیْنِكَ١ۚ سَاُنَبِّئُكَ بِتَاْوِیْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًا
قَالَ : اس نے کہا ھٰذَا : یہ فِرَاقُ : جدائی بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنِكَ : اور تمہارے درمیان سَاُنَبِّئُكَ : اب تمہیں بتائے دیتا ہوں بِتَاْوِيْلِ : تعبیر مَا : جو لَمْ تَسْتَطِعْ : تم نہ کرسکے عَّلَيْهِ : اس پر صَبْرًا : صبر
) خضرعلیہ السلام) بولے (بس) یہ (وقت) میری آپ کی علیحدگی کا ہے،115۔ اب میں ان چیزوں کی حقیقت پر آپ کو مطلع کئے دیتا ہوں جن کے بارے میں آپ ضبط نہ کرسکے،116۔
115۔ (جیسا کہ آپ خودہی طے کرچکے ہیں) مرشد تھانوی (رح) نے اس سے استنباط کیا کہ جب مرید سے خلاف ونزاع بار بار ظاہر ہونے لگے اور مرشد کو امید اس سے مناسبت وموافقت کی نہ باقی رہ جائے تو اسے جدا کردینا درست ہے۔ 116۔ اس قصہ سے بعض کو دھوکا ہوگیا ہے کہ علم باطن علم شریعت سے افضل ہے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ علم باطن کے دو شعبہ ہیں۔ علم مرضیات الہی جو متعلق بالنفس ہیں اور علم اسرار کونیہ۔ پہلا تو شریعت کا ایک جزء ہے اور جزء کبھی کل سے افضل نہیں ہوسکتا اور دوسرا چونکہ قرب الہی میں میں کچھ دخل نہیں رکھتا اس لئے افضلیت کا احتمال بھی نہیں۔ دوسرا دھوکا یہ ہے کہ خضر (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) سے افضل ہیں۔ جواب یہ ہے کہ خضر (علیہ السلام) کو علم باطن کا دوسرا شعبہ حاصل ہونا اس قصہ سے ثابت ہے اور ابھی سن لیا ہے کہ وہ علم شریعت سے جو کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو حاصل تھا افضل نہیں ہے۔ “ (تھانوی (رح) (آیت) ” بتاویل “۔ تاویل سے یہاں مراد غایت ومصلحت یا مصلحت تکوینی ہے۔ التاویل رد الشیء الی مالہ والمراد بہ ھنا المال والعاقبۃ (روح)
Top