Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 59
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۠   ۧ
فَبَدَّلَ : پھر بدل ڈالا الَّذِیْنَ : جن لوگوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا قَوْلًا : بات غَيْرَ الَّذِیْ : دوسری وہ جو کہ قِیْلَ لَهُمْ : کہی گئی انہیں فَاَنْزَلْنَا : پھر ہم نے اتارا عَلَى : پر الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا رِجْزًا :عذاب مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے بِمَا : کیونکہ کَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : وہ نافرمانی کرتے تھے
مگر ان زیادتی کرنے والوں نے جو انہیں بتایا گیا تھا اس کے خلاف ایک اور کلمہ بدل ڈالا،199 ۔ سو ہم نے ان زیادتی کرنے والوں پر ایک بلاآسمان سے نازل کی،200 ۔ اس سبب سے کہ وہ نافرمانی کرتے رہے تھے،201 ۔
199 ۔ یعنی جو الفاظ انہیں تلقین کیے گئے تھے انہیں چھوڑ چھاڑ کچھ اور کلمے ہزل اور تمسخر کے زبان پر لانے لگے۔ یہ کلمے کیا تھے، اس میں روایتیں مختلف ہیں مگر ماحصل سب کا ایک ہی ہے کہ بجائے توبہ وانابت کے اب وہ کام تمسخر و استہزاء سے لے رہے تھے ومعنی الایۃ الھم انہم وضعوا مکان ما امروا بہ من التوبۃ والاستغفار قولا مغائرا لہ مشعرا باستھزاء ھم بما امروا بہ کل ذلک عدم مبالاۃ باوامر اللہ (بحر) 200 ۔ (آیت) ” رجزا “ رجز عام ہے ہر عذاب کے لیے خواہ وہ کسی صورت میں ہوالرجز ھو العذاب (لسان) لفظ کی تنوین عذاب کی شدت وہیبت کے اظہار کے لیے ہے والتنوین للتھویل والتفخیم (ابوسعود) (آیت) ” من السمآء “ سے مراد یہ نہیں کہ وہ عذاب، برف، بارش وغیرہ کی طرح آسمان سے نازل ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ بلک یہ فقرہ اس حقیقت کے نمایاں کرنے کے لیے کہ وہ عذاب آسمانی حاکم کی طرف سے نازل ہوا تھا، ارضی اسباب سے خود بخود پیدا نہیں ہوگیا تھا۔ اے مقدر من السماء (بیضاوی) (آیت) ” الذین ظلموا “ کی تکرار آیت میں، ان ظالموں کے ظلم نمایاں کرنے کے لیے ہے فی تکریر (آیت) ” الذین ظلموا “ زیادۃ فی تقبیح امرھم وایذانا بان انزال الرجز علیھم لظلمھم (کبیر) ولم یضمرہ تعظیما للامر (قرطبی) یہ عذاب تھا کس صورت میں ؟ ہمارے ہاں روایتیں طاعون کی نقل ہوئی ہیں بعث اللہ علیھم الطاعون (کبیر۔ عن ابن زید) الطاعون (کبیر۔ عن وہب) والمراد بہ الطاعون (بیضاوی) تاریخ بنی اسرائیل میں آتا ہے کہ طاعون اس قوم پر باربار آیا۔ اور بائبل میں اس کا ذکر متعدد مقامات پر ہے۔ آیت ماقبل میں اگر قریہ سے مراد شہر سطیم ہی لیا جائے جو موآب کے علاقہ میں ہے تو اس کے طاعون کا تو مفصل ذکر بائبل میں موجود ہے :۔ ” سو اسرائیل سطیم میں مقیم ہوئے اور ان لوگوں نے موآبیوں کی بیٹیوں سے حرامکاری شروع کی۔ انہوں نے اپنے معبودوں کی قربانیوں پر لوگوں کی دعوت کی۔ لوگوں نے کھایا اور ان کے معبودوں کو سجدہ کیا۔ اور اسرائیلی بعل فغور سے ملے تب خداوند کا قہر بنی اسرائیل پر بھڑکا “ (گتنی۔ 25:2 ۔ 4) ” وہ جو اس وبا میں مرے چوبیس ہزار تھے۔ (گنتی۔ 25:9) 201 ۔ (آیت) ” بماکانوایفسقون “ اے بسبب فسقھم المستمر (ابوسعود) (آیت) ” کانوا یفسقون “ کا صیغہ دوام، عادت و استمرار پر دلالت کررہا ہے۔ یہاں یہ صاف کردیا کہ طاعون کا اصل سبب طبی یا طبعی نہ تھا، روحانی یا اخلاقی بدپرہیزیاں یا نافرمانیاں تھیں۔ قوانین تکوینی کی خلاف ورزی نہیں، اصل باعث شریعت موسوی کی خلاف ورزی تھی، شریعت کی خوردبین نگاہ امراض اور معاصی کے ان خفی ومخفی تعلقات تک بہ آسانی پہنچ جاتی ہے، جو دنیا کے بڑے بڑے حاذق طبیبوں کی نظروں سے پوشیدہ رہ جاتے ہیں۔ عارف رومی (رح) نے سچ کہا ہے۔ ابرنایداز پئے منع زکات وززناخیز دوبااندر جہات فقہاء نے آیت سے اہل بدعت کا ظالم اور سزاوار غضب ہونا نکالا ہے۔ بدعت کہتے ہیں دین میں ایسے نئے امر کے پیدا کرنے کو جس کا نشان اصل شریعت میں نہ موجود ہو۔ اور قرطبی نے کہا ہے کہ جب لفظی تبدیلی یہ نوبت پہنچا دیتی ہے تو عملی تحریف کی شناعت کا کیا ٹھکانا ! والقول انقص من العمل فکیف بالتبدیل والتغییر فی الفعل (قرطبی)
Top