Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 63
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ١ؕ خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَاِذْ اَخَذْنَا : اور جب ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے اقرار وَرَفَعْنَا : اور ہم نے اٹھایا فَوْقَكُمُ : تمہارے اوپر الطُّوْرَ : کوہ طور خُذُوْا : پکڑو مَا آتَيْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیا ہے بِقُوْةٍ : مضبوطی سے وَاذْكُرُوْا : اور یا درکھو مَا فِیْهِ : جو اس میں لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجاؤ
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تم سے عہدلیا،223 ۔ اور ہم نے تمہارے اوپر (کوہ) طور کو بلند کیا،224 ۔ مضبوطی کے ساتھ اس (کتاب) کو پکڑ رکھو جو ہم نے تم کو دی ہے،225 ۔ اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو تاکہ تم متقی بن جاؤ،226 ۔
223 ۔ (اے بنی اسرائیل تمہارے پیغمبر کے واسطہ سے اس مضمون کا کہ تم توریت پر عمل کروگے ، 224 ۔ (آیت) ” الطور “ طور مطلق پہاڑ کو بھی کہتے ہیں اور جزیرہ نمائے سینا کے ایک مخصوص و متعین پہاڑ کا بھی نام ہے، الطور اسم جبل مخصوص وقیل اسم لکل جبل (راغب) جدید جغرافیہ نویس کہتے ہیں کہ طور کا اطلاق جزیرہ نمائے سینا کے متعدد پہاڑوں پر ہوتا ہے، لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے سلسلہ میں جبل طور سے مراد جبل سینا ہوتا ہے۔ لیکن جبل سینا کی کوئی ایک چوٹی نہیں، متعدد چوٹیاں ہیں، انہیں میں سے کسی کا نام طور ہوگا۔ قوم کے اوپر پہاڑ بلند کرنے سے کیا مراد ہے ؟ توریت میں اس کی کچھ مجمل سی کیفیت درج ہے :۔ ” وہ پہاڑ کے نیچے آکھڑے ہوئے اور کوہ سینا پر زیروبالا دھواں تھا، کیونکہ خداوند شعلہ میں ہر کر اس پر اترا، اور شور کا سادھواں اس پر اٹھا اور پہاڑ سراسر ہل گیا “۔ (خروج۔ 19: 17، 18) اور تالمود جو توریت کی مشہور ومستند اور نہایت ضخیم شرح یہود کے ہاں موجود ہے، اس میں اس اجمال کی تفصیل میں اقوال ذیل درج ہیں۔ ” حق تبارک وتعالیٰ نے ان کے اوپر کوہ سینا کو الٹ دیا۔ جس طرح کوئی بڑا ظرف الٹ دیا جاتا ہے، اور کہا کہ اگر تم توریت کو قبول کرتے ہو جب تو خیر، ورنہ سب یہیں دفن ہو کر رہ جاؤ گے “۔ (جیوش انسائیکلوپیڈیا، جلد 4 صفحہ 32 1) ” خدا نے پہاڑ کو ان لوگوں پر الٹ کر اوندھا کردیا اور ان سے کہا کہ توریت کو اگر قبول کرتے ہو جب تو خیر ورنہ یہیں تمہارا مدفن بن کر رہے گا ‘۔۔ (ایضا) ہمارے مفسرین نے جو آثار صحابہ وتابعین کی زبان سے نقل کیے ہیں، ان میں بھی روایتیں اسی سے ملتی جلتی ہیں۔ والہ اعلم بحقیقۃ الحال۔ 225 ۔ یہ پورا مقولہ اسی وقت کا ہے جب کتاب نازل ہوئی تھی، کتاب ہدایت کے نزول اور رفع طور کے ساتھ ساتھ ہدایت اس کی بھی ہوئی تھی کہ اس کتاب کی محافظت کرنا اور اس کے احکام پر مداومت۔ اعملوا بما اعطیتکم من الکتب (ابن عباس) (آیت) ” ما اتیتکم “ سے مراد کتاب توریت ہے۔ احکام توریت کے اس اخذ وتمسک کی تاکید اور اس کے ترک پر وعید خود توریت میں بھی جا بجا مذکور ہے :۔” جو کوئی اس شریعت کی سب باتوں پر قائم نہ رہے کہ ان پر عمل کرے اس پر لعنت، سب جماعت کہے آمین “۔ (استثناء۔ 27:26) ” اگر تو کوشش کرکے خدا وند اپنے خدا کی آواز سنے تاکہ ان سب حکموں پر جو آج کے دن میں تجھ سے فرماتا ہوں، دھیان رکھ کے عمل کرے تو خداوند تیرا خدا زمین کی قوموں کی بہ نسبت تجھے سرفراز کرے گا “۔ (استثناء 28: 1) ” لیکن اگر تو خداوند اپنے خدا کی آواز کا شنوا نہ ہوگا کہ اس کے سارے شرعوں اور حکموں پر جو آج کے دن میں تجھ کو بتاتا ہوں، دھیان رکھ کے عمل کرے تو ایسا ہوگا کہ یہ ساری لعنتیں تجھ پر اتریں گی، اور تجھ تک پہنچیں گی ، “ (استثناء۔ 28: 15) 226 ۔ (اور تقوی کی راہ یہی ہے کہ کتاب الہی پر عمل کیا جائے) (آیت) ” واذکروا مافیہ “۔ یاد رکھو اس کے مضامین کو تاکہ ان پر عمل کرسکو۔ احکام الہی کا یاد رکھنا اصلا اسی غرض سے ہوتا ہے کہ ان پر عمل کیا جاسکے حکم کے تحت میں حفظ، قرأت وغیرہ بھی داخل ہیں، لیکن مقصود اصلی وہی عمل ہے۔ اقراؤا مافی التورۃ واعملوا بہ (ابن کثیر، عن ابی العالیۃ) اے تدبروہ واحفظوا اوامرہ ووعیدہ ولا تنسوہ ولا تضیعوہ ھذا ھو المقصود من الکتب العمل بمقتضاھا لا تلاوتھا باللسان وترتیلھا (قرطبی) (آیت) ” لعل “ کے لیے پوری تصریح اوپر گزرچکی ہے کہ یہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے استعمال ہوتا ہے تو مفہوم شک واحتمال کا نہیں رہتا، بلکہ معنی یقین کے پیدا ہوجاتے ہیں۔
Top