Al-Qurtubi - Al-Baqara : 63
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ١ؕ خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَاِذْ اَخَذْنَا : اور جب ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے اقرار وَرَفَعْنَا : اور ہم نے اٹھایا فَوْقَكُمُ : تمہارے اوپر الطُّوْرَ : کوہ طور خُذُوْا : پکڑو مَا آتَيْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیا ہے بِقُوْةٍ : مضبوطی سے وَاذْكُرُوْا : اور یا درکھو مَا فِیْهِ : جو اس میں لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجاؤ
اور جب ہم نے تم سے عہد (کر) لیا اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا (اور حکم دیا) کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے اس کو زور سے پکڑے رہو اور جو اس میں (لکھا ہے) اسے یاد رکھو تاکہ (عذاب سے) محفوظ رہو
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذاخذنا میثاقکم ورفعنا فوقکم الطور یہ آیت واذنتقنا الجبل فوقھم کا نہ ظلۃ ٌ کے معنی کی تفسیر ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا : ہم نے پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہلایا اور ہم نے اسے اپنی جگہ سے نکالا (1) ۔ فرمایا : ہر وہ چیز جسے تو اکھیڑے اور اسے پھینکے تو اس کے لئے نتقتہ کا لفظ استعمال کرے گا۔ بعض علماء نے فرمایا : نتقناہ کا معنی ہے : رفعناہ۔ ابن اعرابی نے کہا : الناتق کا معنی الرافع ہے۔ الناتق الباسط، الناتق الفاتق، امرءۃ ناتق ومنتاق ایسی عورت جس کی اولاد ہو۔ قتبی نے کہا یہ نتق السقاء سے مشتق کیا گیا ہے جس کا معنی ہے : مشکیزہ کو ہلانا حتیٰ کہ اس سے مکھن علیحدہ ہوجائے اور واذ نتقنا الجبل فوقھم کا نہ ظلۃ کا مطلب ہے اصل سے اکھیڑا گیا۔ (2) الطور کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ اس پہاڑ کا نام ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمائی تھی اور اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا فرمائی تھی۔ یہ ابن جریج نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ ضحاک نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ طور وہ پہاڑ ہے جو کچھ اگائے، نہ کہ وہ پہاڑ جو کچھ نہ اگائے۔ مجاہد اور قتادہ نے کہا : یعنی یہ پہاڑ تھا۔ مگر مجاہد نے کہا : یہ سریانی زبان میں ہر پہاڑ کو کہتے ہیں۔ یہ ابو العالیہ کا قول ہے (3) ۔ کتاب کے مقدمہ میں کلام گزر چکی ہے کہ قرآن حکیم میں غیر عربی زبان کے مفرد الفاظ موجود ہیں یا نہیں۔ الحمد للہ۔ بکری نے کہا : طور بن اسماعیل (علیہ السلام) کی وجہ سے اسے طور کہا جاتا ہے۔ طور پہاڑ کے اٹھانے کے بارے میں علماء کے اقوال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب نبی اسرائیل کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے تختیاں لے کر آئے جن میں تورات تھی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں کہا : اس کو لے لو اور اس کو لازم پکڑ لو۔ انہوں نے کہا : نہیں مگر یہ کہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہم سے اسی طرح کلام کرے جس طرح تجھ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کی۔ پس ان پر بجلی گرائی گئی پھر انہیں زندہ کیا گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں کہا : اس کو پکڑ لو۔ انہوں نے کہا : نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو حکم دیا تو انہوں نے فلسطین کے پہاڑوں سے ایک پہاڑا کھیڑا جس کی لمبائی چوڑائی ایک فرسخ تھی۔ بنی اسرائیل کا لشکر اتنا ہی تھا۔ پس اسے ان پر چھتری کی مثل کردیا گیا اور ان کے پیچھے سے سمندر اور آگے سے آگ کو لایا گیا، انہیں کہا گیا : اب اس کتاب کو پکڑو اور تم پر عہد لازم ہے کہ تم اسے ضائع نہیں کروگے ورنہ تم پر پہاڑ آپڑے گا۔ تو بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتے ہوئے سجدوں میں گر گئے اور تورات کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ طبری نے بعض علماء سے روایت کیا ہے (4) ۔ اگر وہ پہلی دفعہ تو رات کو لے لیتے تو ان پر میثاق نہیں تھا اور بنی اسرائیل کا سجدہ پیشانی کی ایک طرف پر تھا کیونکہ وہ خوف کی وجہ سے پہاڑ کو دوسری طرف سے دیکھ رہے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا تو انہوں نے کہا : کوئی سجدہ اس سجدہ سے افضل نہیں ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم فرمایا۔ پس انہوں نے ایک طرف پر سجدہ کا حکم دیا۔ ابن عطیہ نے کہا : وہ قول جس کے سوا کوئی قول صحیح نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سجدہ کے وقت ان کے دلوں میں ایمان پیدا فرما دیا تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مجبوراً ایمان لائے تھے اور ان کے دل مطمئن نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : خذوا یعنی ہم نے حکم دیا کہ اس کو پکڑ لو۔ ما اتینکم محذوف ہے بقوۃٍ یعنی کوشش اور محنت سے۔ یہ حضرت ابن عباس، حضرت قتادہ اور سدی کا قول ہے۔ بعض نے فرمایا : اس کا معنی ہے : نیت اور اخلاص کے ساتھ۔ مجاہد نے کہا : قوۃ سے مراد ہے اس میں جو احکامات ہیں ان پر عمل کرنے کے ساتھ۔ بعض نے فرمایا : بقوۃٍ یعنی کثرت سے پڑھنے کے ساتھ واذکروا ما فیہ یعنی غوروفکر کرو، اس کے اوامر اور وعید کی حفاظت کرو اور یاد کرو اور اس کو بھولو نہیں اور اس کو ضائع نہ کرو۔ میں کہتا ہوں : کتب سے یہ مقصود ہے ان کے مقتضاء کے مطابق عمل کرنا، نہ صرف زبان سے تلاوت کرنا اور ترتیل سے پڑھنا، کیونکہ صرف زبان سے پڑھنا اور عمل نہ کرنا تو بنذ ٌ (پھینکنا) کے زمرہ میں آتا ہے جیسا کہ شعبی اور ابن عینیہ نے کہا ہے ان دونوں حضرات کا قول نبذ فریقٌ من الذین اوتوا الکتب (البقرہ :101) کے تحت آئے گا۔ نسائی نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں میں سے فاسق شخص وہ ہے جو قرآن پڑھتا ہے اور اس میں سے کسی حکم کی طرف رجوع نہیں کرتا (یعنی احکام پر عمل پیرا نہیں ہوتا) ۔ نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا کہ مقصود عمل کرنا ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے، امام مالک نے فرمایا : بعض اوقات وہ شخص قرآن پڑھتا ہے جس میں خیر نہیں ہوتی (یعنی صرف پڑھتا ہے عمل نہیں کرتا) ۔ پس جو ہم سے پہلے لوگوں پر لازم تھا اور ان سے مطالبہ کیا گیا تھا وہ ہم پر بھی لازم اور واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واتبعوا احسن ما انزل الیکم من ربکم (الزمر : 55) اس میں اپنی کتاب کی اتباع اور اس کے مقتضاء کے مطابق عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ہم نے بھی عمل اسی طرح ترک کردیا ہے جس طرح یہود ونصاری نے ترک کردیا تھا۔ صرف کتابوں اور مصاحف کی ذوات باقی ہیں جو کچھ مفید نہیں کیونکہ جہالت، ریاست کی طلب اور خواہش نفس کی اتباع کا غلبہ ہے۔ ترمذی نے جبیر بن نفیر سے، انہوں نے حضرت ابو درداء سے روایت کیا ہے، فرمایا : ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے، آپ ﷺ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی۔ پھر کہا : یہ وہ وقت ہے جس میں لوگوں سے علم اٹھا لیا جائے گا حتیٰ کہ وہ علم میں سے کسی چیز پر قادر نہ ہوں گے۔ زیاد بن لبید انصاری نے عرض کی : ہم سے علم کیسے اٹھا لیا جائے گا جبکہ ہم نے قرآن پڑھا۔ اللہ کی قسم ! ہم قرآن پڑھتے رہیں گے اور ہم اپنی عورتوں اور بیٹوں کو پڑھائیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے زیاد ! تجھ پر تیری ماں روئے کہ میں تو تجھے فقہائے مدینہ سے شمار کرتا تھا۔ یہ تورات انجیل یہود ونصاریٰ کے پاس موجود ہیں ان کو یہ کچھ فائدہ دیتی ہیں (1) ۔ یہ حدیث تفصیل سے آگے آئے گی۔ نسائی نے جبیر بن نفیر عن عوف بن مالک الاشجعی کے سلسلہ صحیحہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے زیاد کو فرمایا : اے زیاد ! تیری ماں تجھ پر روئے۔ یہ تورات، انجیل یہود و نصاری کے پاس موجود ہیں۔ مؤطا میں حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے، انہوں نے ایک شخص کو فرمایا : تو ایک ایسے زمانہ میں ہے جس میں فقہاء کثیر ہیں، قراء قلیل ہیں اس میں قرآن کی حدود کی حفاظت کی جاتی ہے اور حروف کی ادائیگی کا اتنا خیال نہیں رکھا جاتا، سوال کرنے والے تھوڑے ہیں، عطا کرنے والے بہت ہیں، لوگ نماز لمبی پڑھتے ہیں، خطبہ چھوٹا دیتے ہیں، اپنی خواہشات سے پہلے اعمال خیر کا آغاز کرتے ہیں۔ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں فقہاء کم ہوں گے، قراء زیادہ ہوں گے، اس میں حروف کی حفاظت کی جائے گی اور اس کی حدود کو ضائع کیا جائے گا، سوال کرنے والے زیادہ ہوں گے اور عطا کرنے والے کم ہوں گے، خطبے لمے دیں گے اور نمازیں مختصر کریں گے، اپنے اعمال سے پہلے خواہش نفسل پر عمل کریں گے (1) ۔ یہ نصوص ہماری اس بات پر دلالت کرتی ہیں جو ہم نے ذکر کی ہے۔ یحییٰ نے کہا : ابن نافع سے میں نے یبدءون اھوائھم قبل اعمالھم کا مطلب پوچھا تو انہوں نے کہا لوگ اپنی خواہش نفس پر عمل کریں گے اور اس عمل کو ترک کریں گے جو ان پر فرض ہے۔ لعلکم تتقون پر پہلے کلام گزر چکی ہے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثم تولیتیم، تولی باب تفعل ہے اس کا اصل معنی جس میں سے کسی چیز سے اعراض کرنا اور پیٹھ پھیرنا ہے، پھر یہ وسعت ومجاز کی وجہ سے اوامر، ادیان اور معتقدات میں سے اعراض میں استعمال ہوتا ہے۔ من بعد ذلک یعنی دلیل کے بعد۔ وہ میثاق کا لینا اور پہاڑ کو بلند کرنا ہے۔ فلو لا فضل اللہ علیکم، فضل سیبویہ کے نزدیک مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے اور خبر محذوف ہے جس کا اظہار جائز نہیں کیونکہ اس کے اظہار سے مستغنی ہوتے ہیں مگر یہ کہ جب وہ اس کے اظہار کا ارادہ کرتے ہیں تو ان کے ساتھ لاتے ہیں جب وہ ان کے ساتھ لاتے ہیں تو خبر کو حذف نہیں کرتے۔ تقدیر عبارت اس طرح ہے : فلولا فضل اللہ تدارککم۔ لکنتم یہ لو لا کا جواب ہے من الخسرین، کنتم کی خبر ہے۔ الخسران کا معنی نقصان ہے یہ پہلے گزر چکا ہے۔ بعض علماء نے کہا : اس کا فضل یہ ہے کہ توبہ قبول کرنا۔ اور رحمتہ سے مراد العفو ہے اور الفضل سے مراد ثابت شدہ پر زیادتی ہے۔ الافضال ایسا فعل کرنا جو واجب نہ ہو۔ ابن فارس نے المجمل میں کہا : الفضل سے مراد زیادتی اور خیر ہے۔ الافضال کا مطلب الاحسان ہے۔
Top