Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 63
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ١ؕ خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَاِذْ اَخَذْنَا : اور جب ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے اقرار وَرَفَعْنَا : اور ہم نے اٹھایا فَوْقَكُمُ : تمہارے اوپر الطُّوْرَ : کوہ طور خُذُوْا : پکڑو مَا آتَيْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیا ہے بِقُوْةٍ : مضبوطی سے وَاذْكُرُوْا : اور یا درکھو مَا فِیْهِ : جو اس میں لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجاؤ
اور یاد کرو جب کہ ہم نے تم سے تمہارا عہد لیا اور اٹھایا تمہارے اوپر طور کو۔ پکڑو اس چیز کو جو ہم نے تم کو دی ہے مضبوطی کے ساتھ اور جو کچھ اس میں ہے اس کو یاد رکھو تاکہ تم خدا کے غضب سے محفوظ رہو۔
مَوثِق اور میثاق کے معنی عہدوپیمان کے ہیں۔ اس لفظ کی روح وثوق اور استحکام ہے اس وجہ سے یہ خاص طور پر اس عہدوپیمان کے لئے استعمال ہوتا ہے جو کسی اہم معاملہ کے لئے پورے شعور اور پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ باندھا گیا ہو اور جس کی وفاداری کا تاکید کے ساتھ اظہار و اقرار کیا گیا ہو۔ یہاں اس سے مراد وہ عہد ہے جو بنی اسرائیل سے تورات کی پابندی کا لیا گیا۔ شریعت الہٰی خدا اور بندوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوتی ہے اس وجہ سے اس کو میثاق سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ سورہ اعراف میں اس میثاق کا حوالہ اس طرح آیا ہے: اَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِمۡ مِّيثَاقُ الْكِتَابِ اَن لَّا يَقُوۡلُوۡا عَلَى اللهِ اِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوۡا مَا فِيهِ وَالدَّارُ الۡاٰخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِيۡنَ يَتَّقُوۡنَ اَفَلاَ تَعْقِلُوۡنَ وَالَّذِيۡنَ يُمَسِّكُوۡنَ بِالْكِتَابِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ اِنَّا لاَ نُضِيعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِيۡنَ وَاِذۡ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّوا أَنَّهٗ وَاقِعٌ بِهِمْ خُذُوۡا مَا اٰتَيْنٰكُمۡ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوۡا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوۡنَ۔ اعراف : ۱۶۹-۱۷۱ کیا ان سے کتاب کے باب میں میثاق نہیں لیا گیا کہ اللہ کی طرف نہیں منسوب کریں گے مگر حق بات اور انہوں نے اس کو اچھی طرح پڑھا جو اس میں ہے اور دار آخرت کی کامیابی ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو تقویٰ اختیار کریں، تو کیا تم سمجھتے نہیں۔ اور جو لوگ کتاب کو مضبوطی کے ساتھ پکڑیں گے اور نماز قائم کریں گے (وہی لوگ مصلح ہیں) ہم مصلحوں کا اجر ضائع نہیں کریں گے۔ اور یاد کرو جب کہ ہم نے ان کے اوپر پہاڑ کو اس طرح اٹھا لیا گویا وہ سائبان ہے اور انہوں نے گمان کیا کہ وہ ان پر گر کر رہے گا۔ لو اس کو جو ہم نے تم کو دیا ہے مضبوطی کے ساتھ اور جو کچھ اس میں ہے اس کو برابر یاد رکھو تاکہ تم خدا کے غضب سے محفوظ رہو۔ یہ معاہدہ قرآن مجید اور تورات دونوں میں تصریح ہے کہ بنی اسرائیل کے سرداروں سے دامن کوہ میں لیا گیا اور اس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک سخت زلزلہ نے پہاڑ کو ہلا دیا۔ اگر زلزلہ کے وقت آدمی کسی اونچی دیوار کے زیر سایہ یا پہاڑ کے دامن میں بیٹھا ہو تو ایسا معلوم ہو گا کہ پہاڑ یا دیوار سائبان کی طرح سر پر لٹک رہے ہیں اور اوپر گرا چاہتے ہیں۔ اس حالت کو قرآن نے طور کو ان کے سروں پر اٹھا لینے سے تعبیر کیا ہے۔ یہ پہاڑ ان کے سروں پر لٹکا دینا بنی اسرائیل کو معاہدہ پر مجبور کرنے کے لئے نہیں تھا اگر وہ یہ معاہدہ نہیں کرتے ہیں تو اس پہاڑ سے کچل کر رکھ دئیے جائیں گے، معاہدہ کو قبول کرنا یا نہ کرنا ایک امر اختیاری ہے۔ دین کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے زبردستی اور جبر کو پسند نہیں فرمایا ہے جو کچھ ہوا وہ محض اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے جلال کا ایک مظاہرہ تھا تاکہ بنی اسرائیل اس بات کو یاد رکھیں کہ جس خدا کے ساتھ وہ شریک معاہدہ ہو رہے ہیں وہ کوئی کمزور اور بے اختیار ہستی نہیں ہے بلکہ اس کی قدرت بے پناہ ہے۔ معاہدہ کی پابندی کی شکل میں جس طرح دنیا اور آخرت دونوں میں اس کے انعامات کی کوئی حد نہیں ہے اسی طرح اس کی خلاف ورزی کی صورت میں اس کے غضب کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔ وہ طور جیسے عظیم پہاڑ کو ان کے سروں پر لٹکا سکتا اور اس سے ان کو کچل کے رکھ دے سکتا ہے۔ خُذُوۡا مَآ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوۡا مَا فِيۡهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوۡنَ: یعنی اس تورات کا جو تمہارے لئے اللہ کا ایک عظیم عطیہ ہے پوری مضبوطی اور پوری عزیمت کے ساتھ لو اور زندگی کے تمام مراحل میں پورے استقلال اور پوری پامردی کے ساتھ اس کے احکام اور اس کی ہدایات کو نباہو۔ اس کے احکام نرم بھی ہیں اور سخت بھی، نیز اس کی ذمہ داری یُسر میں بھی ہے اور عُسر میں بھی، اس وجہ سے کمزور ہاتھوں اور ڈھیلے ارادوں کے ساتھ اس کا حق ادا نہیں ہوگا، بلکہ اس کے لئے قوت اور عزیمت مطلوب ہے۔ وَاذْكُرُوۡا مَا فِيۡهِ: جو کچھ اس میں ہے اس کو یاد رکھو، سے مراد احکام وہدایات بھی ہیں اور خاص طور پر وہ تنبیہات اور تہدیدات بھی جو اس میثاق کی خلاف ورزی کے نتائج سے متعلق بنی اسرائیل کو سنا دی گئی تھیں۔ تورات میں بڑی تفصیل کے ساتھ ان کو آگاہ کر دیا گیا تھا کہ اگر وہ اس عہد پر قائم رہیں گے تو وہ زمین اور آسمان دونوں طرف سے خدا کا فضل پائیں گے اور اگر انہوں نے اس کی ناقدری کی تو دنیا اور آخرت دونوں میں اس کی سزا بھی بڑی ہی سخت ہو گی۔ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوۡنَ: سے یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو، اس لئے کہ کتاب الہٰی کا اصل مقصد ہی راہ تقویٰ کی نشان دہی ہوتا ہے لیکن ہم نے موقع کلام اور سیاق وسباق کی روشنی میں اس سے خدا کے قہروغضب سے بچنا مراد لیا ہے۔ ہمارا ذہن اس طرف اس وجہ سے گیا ہے کہ اس سے پہلے ان کو خاص طور پر، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، ان تنبیہات وتحذیرات کو یاد رکھنے کی نصیحت کی گئی ہے جو تورات میں میثاق الہٰی کی خلاف ورزی کے نتائج سے متعلق اس کو سنائی گئی تھیں اور ان کے سنانے سے مقصود یہی تھا کہ وہ اپنی آئندہ زندگی میں خدا کے قہر وغضب سے محفوظ رہیں۔
Top