Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 63
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ١ؕ خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَاِذْ اَخَذْنَا : اور جب ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے اقرار وَرَفَعْنَا : اور ہم نے اٹھایا فَوْقَكُمُ : تمہارے اوپر الطُّوْرَ : کوہ طور خُذُوْا : پکڑو مَا آتَيْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیا ہے بِقُوْةٍ : مضبوطی سے وَاذْكُرُوْا : اور یا درکھو مَا فِیْهِ : جو اس میں لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجاؤ
پھر جب ہم نے تم سے تمہارا پختہ عہد لیا تھا اور کوہ طور کی چوٹیاں تم پر بلند تھیں کہ جو کتاب تمہیں دی گئی ہے اس پر مضبوطی کے ساتھ جم جاؤ اور جو کچھ اس میں بیان کیا گیا ہے اسے ہمیشہ یاد رکھو تاکہ تم پرہیزگار ہو
تورات کی تعلیم کی پابند رہنے کا عہد بنی اسرائیل سے : 136: کسی میشاق یا عہد کا لینا جب اللہ اپنی طرف منسوب فرماتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ایک قوم کو بذریعہ اس کے نبی کے کچھ احکام دئیے جاتے ہیں اور وہ اس نبی پر ایمان لا کر گویا یہ اقرار کرتے ہیں کہ ہم ان احکام کی تعمیل کریں گے۔ پس موسیٰ (علیہ السلام) کی معرفت اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ وہ تورات کے پابند رہیں گے ، وہ وقت تھا کہ وہ دامن کوہ میں کھڑے تھے اور اپنے اوپر پہاڑ کو دیکھ رہے تھے ، انہیں اس وقت یہ محسوس ہوا کہ گویا وہ ان پر گر رہا ہے اور اگر ایسا ہوا تو اسکے گرتے ہی سب لوگ فنا ہوجائیں گے اور ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہے گا ۔ اللہ انہیں یہ بتانا چاہتا تھا کہ جو قانون تم کو دیا گیا ہے وہ تمہارے لئے زندگی بخش ہے اگر تم اس کو ترک کر دو گے تو مٹ جائو گے اسی حقیقت کو اس مثال سے اور زیادہ واضح کردیا کہ یہ پہاڑ تمہارے سامنے رفیع و بلند دکھائی دے رہا ہے ۔ جب تک یہ اپنی جگہ پر قائم ہے تم زندہ ہو۔ جہاں تمہارے اوپر گرا تم پس گئے پس اس طرح یقین کرلو کہ توراۃ کی پابندی میں زندگی ہے اور ترک میں ذلت و رسوائی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہاڑ ان کے سروں پر وقتی طور پر بلند کردیا گیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے سامنے اس کو دیکھ رہے تھے کہ پہاڑ ان کے سروں پر ہے یعنی ان کے کھڑے ہونے کی جگہ ایسی تھی کہ وہاں اس طرح نظر آرہا تھا ۔ حدیث میں ہے : ” فَرُفِعَتْ لَنَا صَخْرَةٌ “ (بخاری : 866) جس کے معنی سب کو معلوم ہیں کہ ” ظھرت لا بصارنا “ یعنی چٹان ہمیں نظر آنے لگی۔ یہاں بھی یہی معنی مراد ہیں کہ وہ اپنے سامنے پہاڑ کو دیکھ رہے تھے۔ اگر وہ بات ہو جو عام طور پر سمجھی جاتی ہے کہ پہاڑ کو بلند کر کے ان کے سروں پر لایا گیا اور پھر اس کے نیچے ان سے عہد لیا گیا کہ انہوں نے مان لیا اور عہد کرلیا تو ٹھیک ورنہ پہاڑ گرا کر ان کا کام تمام کردیا جائے گا تو اس طرح کا معجزہ بنانے والوں کو یہ خیال نہ رہا کہ ایک طرف تو ہم معجزہ بنا رہے ہیں اور دوسری طرف جبر واکراہ سے عہد لے رہے ہیں حالانکہ جبر واکراہ سے عہد لیا ہوا یا عہد کیا ہوا کب عہد رہ جاتا ہے ؟ پھر دین اسلام میں جبر واکراہ کی ویسے بھی ممانعت ہے تو اس طرح بیان کرنے والوں نے ناسمجھی کی بنا پر اسلام کے منہ پر داغ لگانے کی کوشش کی ہے حالانکہ اسلام ایسے داغوں سے ہر حال میں پاک ہے۔
Top