Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 106
یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌ١ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ١۫ اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
يَّوْمَ : دن تَبْيَضُّ : سفید ہونگے وُجُوْهٌ : بعض چہرے وَّتَسْوَدُّ : اور سیاہ ہونگے وُجُوْهٌ : بعض چہرے فَاَمَّا : پس جو الَّذِيْنَ : لوگ اسْوَدَّتْ : سیاہ ہوئے وُجُوْھُھُمْ : ان کے چہرے اَكَفَرْتُمْ : کیا تم نے کفر کیا بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : اپنے ایمان فَذُوْقُوا : تو چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا كُنْتُمْ : کیونکہ تم تھے تَكْفُرُوْنَ : کفر کرتے
اس روز (جس رو ز) بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض چہرے سیاہ ہوں گے، پھر جن کے چہرے سیاہ ہوں گے ان سے کہا جائے گا کہ کیا تم ہی کافر ہوگئے تھے اپنے ایمان کے بعد ؟ ،222 ۔ سو عذاب چکھو اپنے کفر کی پاداش میں
222 ۔ یہ خطاب اہل دوزخ سے تو بہر حال ہوگا، گفتگو اس میں ہوئی ہے کہ ان سب سے ہوگا یا ان کے صرف بعض گروہوں سے ؟ ایک قول یہ ہے کہ ان سب سے ہوگا اور ایمان سے یہاں مراد اظہار ایمان ہے۔ ھم المنافقون (ابن جریر، عن الحسن) ایک قول ہے کہ مخاطب اہل کتاب ہیں اور حجت ان پر قائم کی جائے گی کہ تمہاری کتابوں میں نبی آخر الزمان ﷺ کا ذکر پوری طرح موجود اور پھر تم مکر گئے۔ المراد اھل الکتب (کبیر عن عکرمہ والاصم والزجاج) بعض اہل نظر نے ترجیح اسی قول کو دی ہے۔ والظاھر من السیاق والسباق ان ھولآء اھل الکتاب (روح) ابن جریر نے بعض تابعین سے استناد کرکے یہ شق اختیار کی ہے کہ خطاب سارے کافروں کے لیے عام ہے اور جس ایمان کا یہاں ذکر ہے وہ اظہار ایمان عالم ارواح میں عہد الست کے وقت کا ہے۔ ھو الایمان الذی کان قبل الاختلاف فی زمان ادم (ابن جریر، عن ابی بن کعب) عنی بذلک جمیع اھل الکتاب (ابن جریر) (آیت) ” تبیض وجوہ “۔ یوم حشر تو کشف حقائق کا وقت ہوگا، ضرور ہے کہ اہل حق کے چہرے اس دن انوار حق سے چمکتے جگمگاتے نظرآئیں۔ (آیت) ” تسودوجوہ “۔ کشف حقائق کے وقت یہ بالکل قدرتی ہے کہ اندر کی سیاہیاں اور باطن کی کدورتیں نکل نکل کر اہل باطل کے چہروں پرچھا چھا جائیں۔ عربی محاورہ میں ابیضاض وجہ اور اسوداد وجہ سے مراد محض مسرت، غم بھی ہوسکتی ہے۔
Top