Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 106
یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌ١ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ١۫ اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
يَّوْمَ : دن تَبْيَضُّ : سفید ہونگے وُجُوْهٌ : بعض چہرے وَّتَسْوَدُّ : اور سیاہ ہونگے وُجُوْهٌ : بعض چہرے فَاَمَّا : پس جو الَّذِيْنَ : لوگ اسْوَدَّتْ : سیاہ ہوئے وُجُوْھُھُمْ : ان کے چہرے اَكَفَرْتُمْ : کیا تم نے کفر کیا بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : اپنے ایمان فَذُوْقُوا : تو چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا كُنْتُمْ : کیونکہ تم تھے تَكْفُرُوْنَ : کفر کرتے
جس دن بہت سے منہ سفید ہوں گے اور بہت سے منہ سیاہ تو جن لوگوں کے منہ سیاہ ہوں گے (ان سے خدا فرمائے گا) کیا تم ایمان لا کر کافر ہوگئے تھے؟ سو (اب) اس کفر کے بدلے عذاب (کے مزے) چکھو
یوم تبیض وجوہ و تسود وجوہ وجوہ میں دونوں جگہ تنوین مضاف الیہ کے عوض میں آئی ہے یعنی جس روز مؤمنوں کے چہرے روشن اور کافروں کے چہرے سیاہ ہوں گے۔ تنوین تکثیر کے لیے بھی ہوسکتی ہے یعنی بہت سے چہرے روشن اور بہت چہرے سیاہ ہوں گے۔ سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ اہل سنت کے چہرے روشن اور اہل بدعت کے چہرے کالے ہوں گے۔ دیلمی نے مسند الفردوس میں ضعیف سند کے ساتھ حضرت ابن عمر کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : کہ اہل سنت کے چہرے روشن اور اہل بدعت کے چہرے سیاہ ہوں گے۔ فاما الذین اسودت وجوھھم اکفرتم بعد ایمانکم پس جن کے چہرے سیاہ پڑگئے ہوں گے ان سے کہا جائے گا کہ نبی اور کتاب پر ایمان لانے کے بعد پھر تم نے قطعی دلائل کا انکار کیا اور دین میں تفرقہ کیا اور متشابہات کی تفسیر کے پیچھے پڑگئے۔ استفہام زجر اور تعجب کے اظہار کے لیے ہے۔ فذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون پس اپنے کفر کرنے کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھو۔ یہ آیت اس امت اور گذشتہ امتوں کے بدعتیوں کے حق میں نازل ہوئی۔ حضرت ابو امامہ اور قتادہ کا یہی قول ہے۔ امام احمد وغیرہ نے حضرت ابو امامہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا : وہ خارجی ہیں لیکن حضرت اسماء کی روایت کردہ حدیث بتارہی ہے کہ اس آیت میں اہل رائے مراد ہیں کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا : میں حوض پر دیکھتا رہوں گا کہ کون کون میرے پاس آتا ہے کچھ لوگ مجھ سے پرے ہی پکڑ لیئے جائیں گے (یعنی ان کو حوض پر نہیں آنے دیا جائے گا) میں کہوں گا۔ اے رب یہ تو میرے ہیں میری امت کے (افراد) ہیں جواب دیا جائے گا کیا تم کو معلوم ہے کہ تمہارے بعد انہوں نے کیا کیا ‘ خدا کی قسم یہ برابر اپنی ایڑیوں کے بل (تمہاری ہدایت سے) لوٹتے رہے۔ (رواہ البخاری) حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان فتنوں سے پہلے عمل کرلو جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح آئندہ چھا جائیں گے ‘ صبح کو آدمی مؤمن ہوگا اور شام کو کافر، شام کو کافر ہوگا اور صبح کو مؤمن۔ دین کو دنیا کے حقیر سامان کے عوض بیچ ڈالے گا۔ (رواہ احمد و مسلم والترمذی) بعض اقوال میں آیا ہے کہ اس آیت کا نزول مرتدوں کے حق میں ہو اتھا بعض علماء نے مورد نزول ان اہل کتاب کو قرار دیا ہے جنہوں نے حضرت موسیٰ اور تورات پر ایمان لانے کے بعد رسول اللہ کا انکار کردیا یا بعثت سے پہلے تو رسول اللہ پر (غائبانہ) ایمان رکھتے تھے مگر بعثت کے بعد انکار کردیا۔ بعض نے کہا تمام کفار کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی کیونکہ اللہ نے سب کو (ازل میں) اپنی ربوبیت کا شاہد بنا لیا تھا اور دنیا میں آنے کے بعد لوگ کافر ہوگئے یا یوں کہا جائے کہ دلائل پر غور کرنے کے بعد ایمان لانے پر قادر تھے مگر ایمان نہ لائے۔
Top