Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 40
قَالَ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ قَدْ بَلَغَنِیَ الْكِبَرُ وَ امْرَاَتِیْ عَاقِرٌ١ؕ قَالَ كَذٰلِكَ اللّٰهُ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اَنّٰى : کہاں يَكُوْنُ : ہوگا لِيْ : میرے لیے غُلٰمٌ : لڑکا وَّقَدْ بَلَغَنِىَ : جبکہ مجھے پہنچ گیا الْكِبَرُ : بڑھاپا وَامْرَاَتِيْ : اور میری عورت عَاقِرٌ : بانجھ قَالَ : اس نے کہا كَذٰلِكَ : اسی طرح اللّٰهُ : اللہ يَفْعَلُ : کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے
(زکریا علیہ السلام) بولے اے میرے پروردگار میرے بیٹا کس طرح ہوگا درآنحالیکہ مجھے بڑھاپا آپہنچا ہے اور میری بیوی بانجھ ہیں،106 ۔ ارشاد ہوا اسی طرح اللہ کردیتا ہے جو کچھ وہ چاہتا ہے،107 ۔
106 ۔ انجیل میں اس موقع پر ہے۔” زکریا (علیہ السلام) نے فرشتہ سے کہا میں اس بات کو کس طرح جانوں کیونکہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی بھی عمر رسیدہ ہے “۔ (لوقا۔ 1: 18) ان کے اولاد نہ تھی کیونکہ الیشبع بانجھ تھی اور دونوں عمررسیدہ تھے “۔ (لوقا 1:7) (آیت) ” انی یکون لی غلم “۔ یعنی اس بشارت کے تحقق کی متعین صورت آخر کیا ہوگی ؟ آیا میری جوانی عود کر آئے گی یا اور کوئی خاص انقلاب ہوگا ؟ وعدہ الہی سے بےاعتباری کا یہاں کوئی سوال نہیں۔ حضرت تو محض متعین صورت جاننا چاہتے ہیں۔ لیکن بالفرض عدم اطمینان بھی مراد لی جائے۔ جب بھی خلاف اسباب عاد یہ کسی شے کے غیر وقوع پر حیرت بالکل طبعی ہے اور پیغمبر بھی امور طبعی میں بالکل بشر ہی تھے۔ 107 ۔ (کہ اس حقیقت کا مراقبہ ہر استبعاد کے رفع کردینے کے لیے کافی ہے) (آیت) ” کذلک “۔ یعنی عود شباب وغیرہ کچھ نہ ہوگا۔ بس اسی موجودہ حالت کے ساتھ ولادت فرزند ہوگئی۔
Top