Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 7
وَ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ مِیْثَاقَهُ الَّذِیْ وَاثَقَكُمْ بِهٖۤ١ۙ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١٘ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
وَاذْكُرُوْا : اور یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : تم پر (اپنے اوپر) وَمِيْثَاقَهُ : اور اس کا عہد الَّذِيْ : جو وَاثَقَكُمْ : تم نے باندھا بِهٖٓ : اس سے اِذْ قُلْتُمْ : جب تم نے کہا سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَاَطَعْنَا : اور ہم نے مانا وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور اللہ سے ڈرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ : بات الصُّدُوْرِ : دلوں کی
اور اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کو یاد کرلیاکرو،44 ۔ اور اس کے اس عہد کو بھی جس کا اس نے تم سے معاہدہ کیا ہے (یہ اس وقت) جب تم نے کہا کہ ہم نے سن لیا، اور مان لیا،45 ۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ سینوں کے اندر تک کا علم رکھتا ہے،46 ۔
44 ۔ (اور اس کی بڑی نعمت یہی ہے کہ اس نے فلاح دنیوی واخروی کے طریقے اس تفصیل اور اس تکمیل کے ساتھ تمہیں بتا دیئے ہیں) (آیت) ” النعمۃ ھنا الاسلام (بحر) وھی نعمۃ الاسلام (روح) امام رازی (رح) نے لکھا ہے کہ (آیت) ” نعمۃ اللہ “۔ سے یہاں مراد ان نعمتوں کی تعداد نہیں بلکہ جنس نعمت ہے۔ (آیت) ” نعمۃ “۔ بہ طور اسم جنس مستعمل ہوا ہے۔ اس لیے ضرورت صیغہ جمع کی نہیں پڑی۔ 45 ۔ (آیت) ” میثاقکم “۔ اس سے کون سا عہد مراد ہے ؟ ایک گروہ کا خیال ہے کہ اس سے مراد عالم ارواح کا وہ عہد ہے جو سارے بنی آدم سے اقرار ربوبیت کی بابت لیا گیا تھا، قال مجاہد وکلبی ومقاتل ھو المیثاق الذی اخذہ اللہ تعالیٰ منہم حین اخرجھم من ظہر ادم (کبیر) روح انسانی کے اندر جو فطری طلب خدا رسی کی اور طبعی خواہش خدا طلبی کی ہے، یہ اسی عہد کا عملی ظہور ہے۔ لیکن خطاب یہاں عام نوع بشر سے نہیں، بلکہ اہل ایمان سے ہے۔ اس لیے آسان اور بےتکلف صورت یہ ہے کہ وہ عہد مراد لیا جائے جو ہر کلمہ گو اسلام قبول کرتے وقت کرتا ہے یعنی تعمیل احکام کا اجمالی عہد۔ قیل المیثاق اقرار کل م من بما ائتمربہ (بحر) اس سے بھی زیادہ دلشنین تفسیر یہ ہے کہ میثاقکم سے مراد بیعت و اطاعت کے وہ عہد ہیں، جو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں سے لیے تھے ابن عباسؓ اور سدی وغیرہم سے یہی معنی مروی ہیں، والذی علیہ الجمھور من المفسرین کا بن عباس ؓ والسدی ھو العھد والمیثاق الذی جری لھم مع النبی ﷺ علی السمع والطاعۃ من المنشط والمکرہ کما جری لیلۃ العقبۃ وتحت الشجرۃ۔ (قرطبی) المراد ھو المواثق التی جرت بین رسول اللہ ﷺ وبینہم فی ان یکونوا علی السمع والطاعۃ فی المحبوب والمکروہ (کبیر) وھذہھی البیعۃ التی کانوا یبایعون علیھا رسول اللہ ﷺ عند اسلامہم (ابن کثیر) وذلک حین بایعوا رسول اللہ ﷺ علی السمع والطاعۃ فی ما احبوا وکرھوا وھو قول المفسرین (مالم) ایسے عہد تو لیے تھے رسول اللہ ﷺ نے لیکن حق تعالیٰ نے ان کے اہتمام شان کے اظہار کے لیے انہیں منسوب اپنی ہی جانب فرمایا۔ واضافۃ تعالیٰ الی نفسہ کما قال انما یبایعون اللہ فبایعوا رسول اللہ ﷺ (قرطبی) انہ تعالیٰ اضاف المیثاق الصادر عن الرسول سدی تابعی سے یہ تفسیر بھی منقول ہے کہ اس سے میثاق سے مراد حقانیت اسلام کے دلائل عقلی ونقلی ہیں، اور متکلمین نے عموما یہی معنی اختیار کیے ہیں، قال السدی المراد بالمیثاق الدلائل العقلیۃ والشرعیۃ نصبھا اللہ تعالیٰ علی التوحید والشرائع وھو اختیار اکثر المتکلمین، (کبیر) 46 ۔ اس حقیقت کے استحضار سے تعمیل احکام میں اخلاص کا پیدا ہوجانا لازمی ہے۔ ورنہ عمل بلا اخلاص سے تو محض مشقت ہی مشقت ہاتھ رہے گی۔ (آیت) ’ ’ واتقواللہ “۔ سے ڈرنا یہ ہے کہ اس کے احکام کی مخالفت سے بچو۔ پہلے یہ تھا کہ تعمیل احکام میں نفع تمہارا ہی ہے۔ اپنی خیرخواہی کا تقاضایہ ہے کہ ان احکام پر عمل کیا جائے۔ پھر یہ یاد دلا دیا کہ تم عہد ومعاہدہ بھی تو کرچکے ہو، اب اخلاقی فرض ان معاہدوں کو پورا کرنا ہے اب (آیت) ” واتقوا اللہ “۔ میں اشارۃ یہ بتایا جارہا ہے کہ مخالفت وعدم تعمیل میں ضرر بھی تمہارا ہی ہے۔
Top