Tafseer-e-Majidi - Al-Anbiyaa : 16
وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ١ؕ كَذٰلِكَ زَیَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْ١۪ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَ : اور لَا تَسُبُّوا : تم نہ گالی دو الَّذِيْنَ : وہ جنہیں يَدْعُوْنَ : وہ پکارتے ہیں مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا فَيَسُبُّوا : پس وہ برا کہیں گے اللّٰهَ : اللہ عَدْوًۢا : گستاخی بِغَيْرِ عِلْمٍ : بےسمجھے بوجھے کَذٰلِكَ : اسی طرح زَيَّنَّا لِكُلِّ : ہم نے بھلا دکھایا ہر ایک اُمَّةٍ : فرقہ عَمَلَهُمْ : ان کا عمل ثُمَّ : پھر اِلٰى : طرف رَبِّهِمْ : اپنا رب مَّرْجِعُهُمْ : ان کو لوٹنا فَيُنَبِّئُهُمْ : وہ پھر ان کو جتا دے گا بِمَا : جو وہ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : کرتے تھے
اور انہیں دشنام نہ دو جن کو یہ (لوگ) اللہ کے سوا پکارتے رہتے ہیں، ورنہ یہ لوگ اللہ کو حد سے گزر کر براہ جہل دشنام دیں گے،157 ۔ اسی طرح ہم نے ہر طریق کے لوگوں کی نظر میں ان کا عمل خوشنما بنارکھا ہے، پھر ان سب کو اپنے پروردگار کے پاس جانا ہے سو وہ انہیں جتلا دے گا، جو کچھ بھی وہ کرتے رہتے تھے،158 ۔
157 ۔ فقہاء نے اسی اصل سے یہ قاعدہ مستنبط کیا ہے کہ جو طاعت درجہ واجب میں نہ ہو، اور کسی معصیت کا سبب بنی جاتی ہو تو اس اطاعت کو ترک کردیا جائے گا۔ قال العلماء حکمھا باق فی ھذہ الامۃ علی کل حال فمتی کان الکافر فی منعۃ وخیف ان یسب الاسلام اوالنبی (علیہ السلام) او اللہ عزوجل فلا یحل لمسلم ان یسب صلبانھم ولا دینھم ولا کنائسھم ولا یتعرض ما یؤدی الی ذلک لانہ بمنزلۃ البعث علیا لمعصیۃ (قرطبی) منع اللہ تعالیٰ فی کتابہ احدا ان یفعل فعلا جائزا یؤدی الی محظور ولا جل ھذا تعلق علمائنا بھذہ الایۃ فی سد الذرائع وھو کل عقد جائز فی الظاہر یؤول اویمکن ان یتوصل بہ الی محظور (ابن العربی) ” بتوں کو برا کہنا فی نفسہ امر مباح ہے مگر جب وہ ذریعہ بن جائے ایک امر حرام یعنی گستاخی بہ جناب باری تعالیٰ کا وہ بھی منہی عنہ اور قبیح ہوجائے گا۔ اس سے بےتکلف یہ ایک قاعدۂ شرعیہ ثابت ہوا کہ مباح جب حرام کا سبب بن جائے، وہ حرام ہوجاتا ہے “ (تھانوی (رح) فی ھذہ الایۃ ضرب من الموادعۃ و دلیل علی وجوب الحکم بسد الذرائع وفیھا دلیل علی ان المحق قد یکف عن حق لہ اذا ادی الی ضرر یکون فی الدین (قرطبی) فی ذلک دلیل علی وجہ المقابلۃ لہ لانہ بمنزلۃ البعث علی المعصیۃ (جصاص) ” لیکن جو امر درجہ واجب وفرض میں ہو، مثلا اثبات توحید و رسالت یا بطال شرک، فقہاء نے لکھا ہے کہ وہ ایسے مفاسد کے ترتب کی بنا پر ترک نہ کیا جائے گا “۔ الحق ان کان واجبا فیاخذہ بکل حال وان کان جائزا ففیہ یکون ھذا القول (ابن العربی) (آیت) ” الذین یدعون من دون اللہ “۔ جنہیں یہ مشرکین بہ طور معبود پکارتے ہیں، مفسرین نے یہاں شبہ نقل کیا ہے کہ مشرکین عرب جنہیں پکارتے تھے وہ تو بےجان بت تھے۔ پھر ان کیلئے الذین کیوں آیا جو صیغہ جاندار اور ذوی العقول کے لئے ہے۔ اور پھر خود ہی جواب دیا ہے کہ یہ مشرکین کے خیال کے مطابق ہے کہ وہ تو انہیں ذوی العقول میں شمار کرتے تھے۔ عبر عن الاصنام وھی لاتعقل بالذین علی معتقد الکفرۃ فیھا (قرطبی) لیکن اصلی جواب یہ ہے کہ الذین یدعون من دون اللہ سے مراد صرف بےجان بت ہی نہیں، بلکہ وہ تو تمام جاندار ہستیاں بھی ہیں جن کے معتقد اہل شرک، ہر قوم اور ہر دور میں رہے ہیں۔ (آیت) ” عدوا “۔ ای جھلا واعتداء (قرطبی) 158 ۔ (اور وہیں اس کا بدلہ بھی مل جائے گا) جس طرح یہ عالم عالم ابتلاء ہے، اسی طرح عالم آخرت عالم جزا ہے۔ جہاں کشف حقایق کے ساتھ ساتھ پورا پورا عدل بھی ہو کر رہے گا۔ (آیت) ” کذلک۔۔۔ یعملون “۔ یعنی اس پر حیرت مطلق نہ کی جائے کہ ایسی شدید گستاخی پر دنیا میں سزا فی الفور کیوں نہیں مل جاتی دنیا میں تو آزادی عمل کا قاعدہ ہی ہم نے مقرر کر رکھا ہے اور اسی لئے تو اس عالم کا نام عالم ابتلاء ہے۔ (آیت) ” کذلک “۔ یعنی جس طرح ہم نے ان لوگوں کی نظر میں ان کے یہ عمل خوشنما اور پسندیدہ کردکھائے ہیں، اسی طرح ہر ہر طبقہ اور ہر ہر امت کی نظر میں اس کا اپنا عمل پسندیدہ کردکھایا گیا ہے۔ ای کما زینا لھؤلاء اعمالھم کذلک زینا لکل امۃ عملھم (قرطبی) ای مثل ذلک التزئین (مدارک)
Top