Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 194
اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْهُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ جنہیں تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : سوائے اللہ عِبَادٌ : بندے اَمْثَالُكُمْ : تمہارے جیسے فَادْعُوْهُمْ : پس پکارو انہیں فَلْيَسْتَجِيْبُوْا : پھر چاہیے کہ وہ جواب دیں لَكُمْ : تمہیں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
بیشک جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ تمہارے ہی جیسے بندے ہیں سو تم انہیں پکارو وہ تمہیں جواب دیں گے اگر تم سچے ہو،286 ۔
286 ۔ (لیکن وہ جواب کہاں دے پاتے ہیں ؟ اور یہی ایک بات تمہارے دعوے کو بدیہی البطلان بنا دینے کے لئے کافی ہے) (آیت) ” عباد امثالکم “۔ یہ مثلیت ومشابہت انسان اور ان دیوتاؤں کے مخلوق ہونے اور بےبس وبے اختیار ہونے میں ہے۔ قال الحسن فی کونھا مملوکۃ اللہ وقال التبریزی فی کونھا مخلوقۃ (بحر) اے مماثلۃ لکم من حیث مملوکۃ للہ تعالیٰ مسخرۃ لامرہ عاجزۃ عن النفع والضر (روح) من حیث انھا مملوکۃ مسخرۃ (بیضاوی) اشارہ ہے جاہلی قوموں کے دیوتاؤں، سورج، چاند، زہرہ مشتری، آکاش دیوتا وغیرہ کی جانب۔ (آیت) ” ان کنتم صدقین “۔ اگر تم سچے ہو۔ ان کے معبود ورب ہونے کے باب میں۔ توریت میں بعل پرستوں اور بعل کے نبیوں کے سلسلہ ذکر میں ہے :۔” انہوں نے وہ بیل جو انہیں د یا گیا تھا لیا اور اسے تیار کیا اور صبح سے دوپہر تک بعل کا نام لیاکئے کہ اے بعل ہماری سن، پر کچھ آواز نہ ہوئی اور نہ کوئی جواب دینے والا تھا۔ اور وہ اس مذبح پر جو بنا تھا کو دا کئے اور دوپہر کو ایسا ہوا کہ ایلیاہ ان پر ہنسا اور بولا، بلندآواز سے پکارو کیونکہ وہ تو ایک خدا ہے، شاید وہ باتیں کررہا ہے یا خلوت میں ہے یا کہیں سفر میں ہے اور شاید کہ وہ سوتا ہے۔ سو ضرور ہے کہ وہ جگایا جائے ( 1 ۔ سلاطین 18:26، 27) (آیت) ” تدعون “۔ میں دعاء سے مراد ان بتوں کو معبود قرار دینا اور فادعوھم میں دعاء سے مراد ان سے طلب نفع ودفع ضرر چاہنا ہے۔ عنی بالدعاء الاول تسمیتھم الاصنام الھۃ۔ والدعاء الثانی طلب المنافع وکشف المضار من جھتھم (جصاص) تدعون اے تعبدونھم وتسمونھم الھۃ (بیضاوی) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ نداء غیر اللہ بہ طور استغاثہ آیت کی رو سے ناجائز ثابت ہورہی ہے۔
Top