Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 24
قَالَ اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ١ۚ وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ
قَالَ : فرمایا اهْبِطُوْا : اترو بَعْضُكُمْ : تم میں سے بعض لِبَعْضٍ : بعض عَدُوٌّ : دشمن وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُسْتَقَرٌّ : ٹھکانا وَّمَتَاعٌ : اور سامان اِلٰي حِيْنٍ : ایک وقت تک
(اللہ نے) فرمایا اترو تم (سب) کوئی کسی کا دشمن (ہوکر) اور زمین میں تمہارے لئے ٹھکانا (رکھا گیا) ہے اور نفع (حاصل کرنا) ایک وقت معلوم تک،30 ۔
30 ۔ یعنی وقت موت تک۔ گویا حکم یہ ملا کہ اب بجائے جنتی اور آسمانی زندگی کے، مدت العمر زمینی زندگی پر گزر بسر کرنا ہوگا (آیت) ” اھبطوا “ یعنی جنت سے اترو۔ خطاب اب محض آدم (علیہ السلام) وحوا سے نہیں۔ ذریت آدم (علیہ السلام) وذریت ابلیس سے بھی ہے۔ اسی لیے اب خطاب میں صیغہ تثنیہ کا نہیں جمع کا ہے۔ یہ ہبوط دنیا میں کہاں ہوا تھا ؟ قرآن اس باب میں خاموش ہے۔ اور تفسیروں میں جو روایتیں منقول ہیں ان میں سے کوئی حدیث صحیح کے درجہ کی نہیں، بلکہ سب کا ماخذ اسرائیلیات ہی ہیں۔ اس لیے مسلمان کے لیے سکوت ہی اولی ہے۔ وقد ذکر المفسرون الا ماکن التی ھبط فیھا کل منھم ویرجع حاصل تلک الاخبار الی الاسرائیلیات واللہ اعلم بصحتھا (ابن کثیر) اور مفسر ابن کثیر نے ایک بات یہاں بڑے پتہ کی کہہ دی ہے جو صرف اسی موقع کے لیے نہیں بلکہ ہر ایسے موقع کے لیے کارآمد ہے۔ وہ یہ کہ جب قرآن و حدیث دونوں اس تعین سے خاموش ہیں تو اس کے معنی یہی ہیں، کہ خدا و رسول ﷺ کے نزدیک اس کا علم دین ودنیا کی ضروریات میں داخل نہیں۔ ولو کان فی تعین تعین تلک البقاع فائدۃ تعود علی المکلفین فی امر دینھم اودنیاھم لذکرھا اللہ تعالیٰ فی کتابہ ورسولہ ﷺ (آیت) ” بعضکم لبعض عدو “۔ دنیا میں انسان بھی انسان کا دشمن ہے۔ لیکن اصلی دشمنی تو ذریت آدم سے ذریت ابلیس ہی کو ہے۔ بمعنی العداوۃ ثابتۃ بین الجن والانس لا تزول البتۃ (کبیر) (آیت) ” ولکم فی الارض مستقر ومتاع الی حین “۔ یعنی اب زمین ہی تمہارا مسکن ہوگی، وہی تم آباد ہوگے۔ اور وہی تمہیں اسباب معیشت موجود ملیں گے۔ بائبل نے آدم (علیہ السلام) کی جنت کو آسمان پر نہیں اسی روئے زمین پر مانا ہے اور ہمارے ہاں کے جو مفسرین زمین جنت کے قائل ہوگئے ہیں وہ عجب نہیں جو بائبل ہی سے تاثر کا نتیجہ ہو ورنہ قرآن کے الفاظ (آیت) ” ولکم فی الارض مستقر “ تو اس باب میں صریح میں کہ آدم (علیہ السلام) (معہ اپنی آیندہ ذریت کے) زمین پر پہلی بار بھیجے جارہے ہیں۔ (آیت) ” الی حین “۔ سے اشارہ اس جانب بھی ہورہا ہے کہ زمینی زندگی بھی مستقل نہیں اور آدم زاد کو اس پر قانع نہ ہوجانا چاہیے۔
Top