Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Maaida : 45
وَ كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ فِیْهَاۤ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ١ۙ وَ الْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَ الْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّ١ۙ وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌ١ؕ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ١ؕ وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
وَكَتَبْنَا
: اور ہم نے لکھا (فرض کیا)
عَلَيْهِمْ
: ان پر
فِيْهَآ
: اس میں
اَنَّ
: کہ
النَّفْسَ
: جان
بِالنَّفْسِ
: جان کے بدلے
وَالْعَيْنَ
: اور آنکھ
بِالْعَيْنِ
: آنکھ کے بدلے
وَالْاَنْفَ
: اور ناک
بِالْاَنْفِ
: ناک کے بدلے
وَالْاُذُنَ
: اور کان
بِالْاُذُنِ
: کان کے بدلے
وَالسِّنَّ
: اور دانت
بِالسِّنِّ
: دانت کے بدلے
وَالْجُرُوْحَ
: اور زخموں (جمع)
قِصَاصٌ
: بدلہ
فَمَنْ
: پھر جو۔ جس
تَصَدَّقَ
: معاف کردیا
بِهٖ
: اس کو
فَهُوَ
: تو وہ
كَفَّارَةٌ
: کفارہ
لَّهٗ
: اس کے لیے
وَمَنْ
: اور جو
لَّمْ يَحْكُمْ
: فیصلہ نہیں کرتا
بِمَآ
: اس کے مطابق جو
اَنْزَلَ
: نازل کیا
اللّٰهُ
: اللہ
فَاُولٰٓئِكَ
: تو یہی لوگ
هُمُ
: وہ
الظّٰلِمُوْنَ
: ظالم (جمع)
اور ہم نے ان لوگوں کے لیے تورات میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں کا اسی طرح بدلا ہے لیکن جو شخص بدلا معاف کردے وہ اس کیلئے کفّارہ ہوگا۔ اور جو خدا کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ بےانصاف ہیں۔
آیت نمبر :
45
۔ اس آیت میں تیس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وکتبنا فیھا ان النفس بالنفس “۔ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اس نے تورات میں نفسوں کے درمیان برابری کی ہے، پس یہود نے اس کی مخالفت کی اور گمراہ ہوئے، نضیری کی دیت زیادہ کردی تھی اور نضیری کو، قرظی کے بدلے میں قتل نہیں کیا جاتا تھا اور قرظی کو نضیری کے بدلے قتل کیا جاتا، جب اسلام آیا تو اس مسئلہ میں بنو قریظہ نے رسول اللہ ﷺ سے رجوع کیا آپ نے برابری کا حکم فرمایا، بنونضیر نے کہا : آپ نے ہمارا مرتبہ کم کردیا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (آیت) ” وکتبنا “ کا معنی ہے ہم نے فرض کیا، یہ پہلے گزر چکا ہے ان کی شریعت میں قصاص یا معنی تھی، ان میں دیت نہیں تھی جیسا کہ سورة البقرہ میں اس کا بیان گزر چکا ہے، امام ابوحنیفہ (رح) اور دوسرے علماء نے اس آیت کی بنا پر فرمایا کہ مسلمان کو ذمی کے بدلے قتل کیا جائے گا، کیونکہ نفس کے بدلے نفس ہے (
1
) (احکام القرآن لابن العربی جلد
2
، صفحہ
225
) سورة بقرہ میں اس کا بیان گزر چکا ہے۔ ابوداؤد، ترمذی اور نسائی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ ان سے پوچھا گیا : کیا رسول اللہ ﷺ نے آپ کو کسی چیز کے ساتھ خاص کیا تھا ؟ فرمایا نہیں مگر جو اس میں ہے انہوں نے اپنی تلوار سے ایک تحریر نکالی اس میں یہ تھا، مومنین کے خون برابر ہیں غیر مسلموں پر ان کا غلبہ ہے، کسی مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اور کسی ذمی کو اس کے عہد میں قتل نہیں کیا جائے گا (ا) (سنن ابی داؤد باب ابغاد المسلم بالکافر، حدیث نمبر
3927
ضیاء القرآن پبلی کیشنز) نیز یہ آیت یہود کے رد کے لیے ہے کہ وہ قبائل میں فرق کرتے تھے وہ ایک قبیلہ سے ایک شخص کے بدلے ایک شخص کو پکڑتے تھے اور دوسرے قبیلہ سے دو شخصوں کے بدلے ایک شخص کو پکڑتے تھے شافعی علماء نے کہا : یہ ہم سے پہلے کی شریعت کی خبر ہے، (
2
) (احکام القرآن لابن العربی جلد
2
، صفحہ
227
) اور ہم سے پہلے شریعت ہمارے لیے شریعت نہیں، سورة بقرہ میں ان کے رد میں اتنا کلام گزر چکا ہے جو کافی ہے وہاں مطالعہ کریں۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” وکتبنا فیھا ان النفس بالنفس “۔ یہ اہل تورات پر فرض تھا وہ ایک ملت ہیں اور ان کے لیے ذمی لوگ اس طرح نہیں تھے جس طرح مسلمانوں کے لیے ذمی لوگ ہیں، کیونکہ جزیہ فئی اور غنیمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے مومنین کو عطا فرمائی اس امت سے پہلے فئی کسی کے لیے نہ تھا، پہلے ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا، پس اس آیت نے حکم کو بنی اسرائیل پر ثابت کیا، کیونکہ ان کے خون برابر تھے، یہ ہم میں سے کسی کے قول کے طرح ہے کہ مسلمانوں کے برابر ہیں کہ نفس کے بدلے نفس ہے، کیونکہ وہ ایک معین قوم کی طرف اشارہ کرتا ہے، وہ کہتا ہے : ان لوگوں میں حکم ہے کہ ان نفس کے بدلے نفس ہے پس اس آیت کے حکم سے اہل قرآن پر یہ کہنا ثابت ہوتا ہے کہ ان کے لیے آپس میں معاملہ اس طرح ہوگا، نفس کے بدلے نفس، قرآن میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ ملت کے اختلاف کے باوجود نفس کے بدلے نفس ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (
2
) امام شافعی (رح) اور امام ابوحنیفہ (رح) کے اصحاب نے کہا : جب کسی کو زخمی کیا جائے گا یا کان یا ہاتھ کاٹا جائے گا اور پھر اسے قتل کیا جائے گا تو ایسا کرنے والے کے ساتھ بھی ایسا کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” وکتبنا فیھا ان النفس بالنفس “۔ پس جو کچھ اس نے کیا اس کے ساتھ وہی کیا جائے گا اس سے وہ لیا جائے گا جو اس نے لیا ہمارے علماء نے فرمایا : اگر تو نے اس سے مثلہ کا قصد کیا تھا تو اس کا بھی مثلہ کیا جائے گا اگر لڑائی کے دوران ناک، کان کٹ گئے تو قاتل کو تلوار کے ذریعے قتل کیا جائے گا (
1
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
625
) وہ یہ مثلہ کے بارے میں ثابت کرتے ہیں، کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے عرنیین کی آنکھوں میں لوہے کی سلاخیں پھیری تھیں، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
3
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والعین بالعین “۔ نافع، عاصم، اعمش اور حمزہ نے تمام میں نصب پڑھی ہے اور ان کی تخفیف جائز ہے اور تمام کو عطف اور ابتدا کی وجہ سے رفع جائز ہے، ابن کثیر، ابن عامر، ابو عمرو اور ابو جعفر، رحمۃ اللہ علیہم نے الجروح کے علاوہ سب کو نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ (
2
) (زاد المسیر، جلد
2
، صفحہ
217
) کسائی اور ابو عبید : (آیت) ” والعین بالعین والانف بالانف والاذن بالاذن والسن بالسن، والجروح “۔ (
3
) (سنن ابی داؤد کتاب الطب، جلد
2
، صفحہ
197
) تمام میں رفع پڑھتے تھے، ابو عبید نے کہا : ہمیں حجاج نے بتایا انہوں نے ہارون سے انہوں نے عباد بن کثیر (رح) سے اور انہوں نے عقیل سے انہوں نے زہری سے انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی مکرم ﷺ نے (آیت) ” وکتبنا فیھا ان النفس بالنفس ‘ والعین بالعین والانف بالانف والاذن بالاذن والسن بالسن، والجروح “۔ پڑھا۔ رفع تین جہات سے ہے : مبتدا اور خبر کی جہت سے اس معنی پر کہ ان کا عطف ” ان النفس “ کے مقام پر ہے کیونکہ معنی یہ ہے کہ ہم نے کہا : (آیت) ” النفس بالنفس “۔ تیسری وجہ زجاج نے کہا : فی النفس میں مضمر پر عطف کی بنا پر ہوگا، ابن المنذر نے کہا : جس نے رفع کے ساتھ پڑھا ہے اس نے اس کو کلام کا آغاز بنایا ہے یعنی یہ مسلمانوں میں حکم ہے، یہ اصلح قول ہے، کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ کی قرات ہے (آیت) ” والعین بالعین “۔ اسی طرح مابعد کے کلمات میں خطاب مسلمانوں کو ہے اس کا انہیں حکم دیا گیا ہے جنہوں نے رفع کے ساتھ جروح کو خاص کیا ہے انہوں نے اس کا ماقبل سے تعلق نہیں جوڑا اور اس سے نئی کلام شروع کی ہے گویا اس کا خاص طور پر مسلمانوں کا حکم دیا گیا ہے اور اس کا ماقبل ان کی طرف متوجہ نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) یہ آیت قصاص کے جاری ہونے پر دلالت کرتی ہے اور ابن شبرمہ نے (آیت) ” العین بالعین “۔ کے عموم کے ساتھ تعلق قائم کیا ہے کہ دائیں آنکھ، بائیں آنکھ کے بدلے میں پھوڑی جائے گا۔ اور انہوں نے اس کو دائیں اور بائیں ہاتھ میں جاری کیا، انہوں نے کہا ؛ سامنے دانت کو داڑھ کے بدلے میں اور داڑھ کو سامنے والے دانت کے بدلے میں توڑا جائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد عام ہے : (آیت) ” والسن بالسن “۔ اور جنہوں نے اس کی مخالفت کی ہے وہ امت کے علماء ہیں وہ کہتے ہیں : دائیں آنکھ، دائیں آنکھ کے بدلے میں پھوڑی جائے گی اگر وہ موجود ہوگی، رضا کے ساتھ بائیں آنکھ کی طرف تجاوز نہیں کیا جائے گا، ہمارے لیے یہ بیان کرتا ہے کہ (آیت) ” العین بالعین “۔ سے مراد مجرم سے پوری مماثلت لینا ہے دوسری چیز کی طرف تعدی جائز نہیں جس طرح پاؤں سے ہاتھ کی طرف جائز نہیں اس میں کوئی شک نہیں۔ مسئلہ نمبر : (
5
) علماء کا اجماع ہے کہ جب وہ دونوں خطاء ضائع کی جائیں گی تو اس میں دیت ہوگی اور ایک آنکھ میں نصف دیت ہوگی (
1
) (مصنف عبدالرزاق، کتاب الدیۃ، جلد
9
، صفحہ
222
) اور کالے شخص کی آنکھ جب پھوڑی جائے گی تو اس میں کامل دیت ہوگی۔ (
2
) (مصنف عبدالرزاق، کتاب الدیۃ، جلد
9
، صفحہ
225
) یہ حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ سے مروی ہے یہی قول عبدالملک بن مروان، زہری، قتادہ، مالک، لیث بن سعد، احمد اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہم کا ہے، بعض نے فرمایا : نصف دیت ہوگی، یہ حضرت عبداللہ بن مغفل، مسروق نخعی رحمۃ اللہ علیہم سے مروی ہے، یہی قول ثوری، شافعی، اور نعمان رحمۃ اللہ علیہم کا ہے، ابن المنذر (رح) نے کہا : ہم بھی یہی قول کرتے ہیں، کیونکہ حدیث میں ہے ” دونوں آنکھوں کو ضائع کرنے میں دیت ہے “ (
3
) (سنن نسائی، کتاب الدیات جلد
2
، صفحہ
251
) معقول بھی اسی طرح ہے کیونکہ ایک آنکھ میں نصف دیت ہے، ابن عربی نے کہا : یہ ظاہر قیاس ہے، لیکن علماء نے کہا : کا نے شخص کی منفعت ایک آنکھ کے ساتھ سلامت شخص کی منفعت کی طرح ہے پس اس پر دیت بھی اس کے مطابق ہو۔ مسئلہ نمبر : (
6
) کا نے شخص کے بارے میں اختلاف ہے جب اس کی صحیح آنکھ پھوڑ دی گئی۔ حضرت عمر ؓ حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ اس پر قصاص نہیں اس پر دیت کامل ہے۔ (
4
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
629
) یہی قول عطا، سعید بن مسیب اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کا ہے، امام مالک (رح) نے کہا : اگر وہ چاہے تو قصاص لے اور اسے اندھاکردے اگر چاہے تو پوری دیت لے لے (کانے کی آنکھ کی دیت) نخعی نے کہا : اگر چاہے تو قصاص لے لے، اگر چاہے تو نصف دیت لے لے (
5
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
629
) امام شافعی (رح)، امام ابوحنیفہ (رح) اور ثوری (رح) نے کہا : اس پر قصاص ہے، یہ حضرت علی ؓ سے بھی مروی ہے یہ حضرت مسروق، ابن سیرین اور ابن معقل رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے۔ ابن المنذر اور ابن عربی رحمۃ اللہ علیہنے اس کو اختیار کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” والعین بالعین “۔ نبی مکرم ﷺ نے دونوں آنکھوں میں دیت رکھی ہے اور ایک آنکھ میں نصف دیت رکھی ہے۔ (
6
) (مصنف عبدالرزاق، کتاب الدیات، جلد
9
، صفحہ
222
) صحیح آنکھ والے اور کا نے کے درمیان قصاص دوسرے لوگوں کے مابین قصاص کی ہیئت پر ہوگا۔ امام احمد بن حنبل کا قول یہ ہے کہ اس سے قصاص میں بعض کے بدلے میں تمام آنکھ لینا ہے اور یہ مساوات نہیں ہے اور جو حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ سے اس کے بارے میں مروی ہے امام احمدنے اس سے استدلال کیا ہے امام امالک کا متمسک یہ ہے کہ دلائل جب متعارض ہوں تو جس پر جنایت کی گئی ہے اسے اختیار دیا گیا جائے ابن عربی (رح) نے کہا : قرآن کے عموم کو لینا اولی ہے، کیونکہ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ محفوظ و قبول ہے۔ (
7
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
629
) مسئلہ نمبر : (
7
) کا نے کی اس آنکھ کے بارے میں اختلاف ہے جس کے ساتھ وہ دیکھتا نہیں ہے، حضرت زید بن ثابت ؓ سے مروی ہے کہ اس میں سو دینار ہیں۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے کہ اس میں آنکھ کی دیت کا تہائی ہے، اسحاق (رح) نے بھی یہی کہا ہے، مجاہد (رح) نے کہا : اس میں نصف دیت ہے، مسروق، زہری امام مالک، امام شافعی، ابوثور، نعمان رحمۃ اللہ علیہم نے کہا : اس میں قاضی کا فیصلہ ہے، ابن المنذر نے کہا : ہم بھی یہی کہتے ہیں، کیونکہ جو کچھ اس کے بارے میں کہا گیا ہے وہ کم از کم ہے۔ مسئلہ نمبر : (
8
) نظر کو ضائع کردیا جب کہ آنکھ کے ڈھیلے باقی ہیں تو پوری دیت ہوگی، اس میں اعمش واخفش برابر ہیں۔ ایک آنکھ کی نظر کی نظر ضائع کرنے میں نصف دیت ہے، ابن المنذر نے کہا : وہ بہتر ہے جو حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے کہا ہے : انہوں نے صحیح آنکھ کو ڈھانپنے کا حکم دیا ایک شخص کو انڈادیا وہ اسے لے کر گیا اور پیچھے وہ دیکھتا رہا حتی کہ اس کی نظر کی انتہاء ہوگئی پھر آپ نے اس جگہ ایک خط کھینچنے کا حکم دیا پھر دوسری آنکھ کو ڈھانپنے کا حکم دیا اور صحیح آنکھ کھولی گئی ایک شخص کو انڈھا دیا وہ اسے لے کر گیا وہ اسے دیکھتا رہا حتی کہ اس کی نظر کی انتہاء ہوگئی وہاں بھی خط کھینچنے کا حکم دیا پھر دوسری جگہ اس کے ساتھ ایسا کیا گیا تو برابر پایا گیا، اپس اس کی آنکھ میں سے جتنی نظر کم ہوگئی تھی اتنا دوسرے کے مال سے دیا (
1
) یہ امام شافعی (رح) کے مذہب پر ہے یہ ہمارے علماء کا قول ہے، مسئلہ نمبر : (
9
) اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ بعض آنکھ پھوڑنے میں قصاص نہیں، کیونکہ اس کا پورا کرنا ممکن نہیں آنکھ میں قصاص کی کیفیت اس طرح ہوگی کہ شیشہ گرم کیا جائے گا، پھر دوسری آنکھ پر روئی رکھی جائے گی، پھر وہ شیشہ اس آنکھ کے قریب رکھا جائے گا حتی کہ اس کی پتلی بہ جائے، یہ حضرت علی ؓ سے مروی ہے اس کی مہدوی اور ابن عربی نے ذکر کیا ہے۔ (
2
) آنکھ کی پلکوں میں اختلاف ہے حضرت زید بن ثابت نے کہا : اس میں چوتھائی دیت ہے۔ (
3
) یہ شعبی (رح) حسن (رح)، قتادہ (رح)، ابوہاشم (رح)، ثوری (رح)، شافعی (رح)، اور اصحاب الرائے کا قول ہے۔ شعبی (رح) سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : اوپر والی پلکوں میں تہائی دیت ہے اور نیچے والی ہیں (
3
؍
2
) (دو تہائی) دیت ہے، یہ امام مالک (رح) کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (
10
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والانف بالانف “۔ حدیث میں رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” ناک کو جب اصل سے کاٹ دیا جائے تو دیت ہے “ (
4
) ابن المنذر (رح) نے کہا : اس قول پر اہل علم کا اجماع ہے ناک توڑنے میں اختلاف ہے، امام مالک (رح) عمدا ایسے کرنے میں قصاص کا نظریہ رکھتے ہیں اور خطاء میں اجتہاد کا نظریہ رکھتے ہیں، ابن نافع نے روایت کیا ہے کہ ناک کے لیے دیت نہیں حتی کہ وہ اسے اصل سے ختم کر دے، ابو اسحاق تونسی نے کہا : یہ شاذ ہے، پہلا قول معروف ہے جب ہم معروف قول پر تفریع کریں گے تو بعض بینی میں اس کے حساب سے دیت ہوگی، جیسے حشفہ (ذکر کا اگلاحصہ) میں دیت ہے، ذکر اصل سے کاٹنے میں دیت ہے۔ مسئلہ نمبر : (
11
) ابن القاسم نے کہا : ناک چیری گئی یا توڑی گئی پھر وہ ٹیڑی ٹھیک ہوگئی تو اس میں اجتہاد ہے اس میں معلوم دیت نہیں ہے، اگر وہ بالکل صحیح لگ گئی تو اس میں کچھ نہیں، فرمایا : ناک میں کچھ نہیں ہے جب وہ چھیدی گئی پھر وہ صحیح ٹھیک لگ گئی تو وہ موصحہ زخم کی طرح ہے اگر غلط ٹھیک ہوئی تو اس میں دیت ہوگی، کیونکہ اس میں سنت موجود ہے ناک چھیدنے میں کوئی اثر نہیں، فرمایا : ناک علیحدہ ہڈی ہے اس میں موضحہ نہیں ہے۔ امام مالک (رح)، امام شافعی (رح) اور ان کے اصحاب نے کہا : اس میں جائفہ نہیں ہے۔ علماء کے نزدیک جائفہ زخم اس میں ہوتا ہے۔ جس میں جوف (خلا) ہو اور المارن (ناک بینی) اس جگہ کو کہتے ہیں جو ناک میں سے نرم ہوتی ہے، اسی طرح خلیل وغیرہ نے کہا : ابو عمر ؓ نے کہا : روثت سے مراد بینی ہے اور ارنب سے مراد اس کی طرف ہے، بعض نے فرمایا : ارنبۃ الروثۃ اور العرتۃ ناک کی طرف کو کہتے ہیں اس پر امام مالک، امام شافعی (رح) اور کوفی علماء کا نظریہ ہے، اور سونگھنے کی قوت جب کم ہوجائے یا ختم ہوجائے تو قاضی کا فیصلہ ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (
12
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الاذن بالاذن “۔ ہمارے علماء نے فرمایا : جس نے کسی کے دونوں کان کاٹ دیئے تو اس پر قاضی کا فیصلہ ہوگا، دیت میں اس پر قوت سماعت ضائع کرنے پر ہے اس کے نقصان میں اسی طرح قیاس کیا جائے گا جس طرح آنکھ میں قیاس کیا جاتا ہے، ایک کان کے ضائع کرنے میں نصف دیت ہے اور اگرچہ وہ صرف اسی کان سے سنتا ہو، بخلاف کانی آنکھ کے اس میں کامل دیت ہے۔ اشہب نے کہا : اگر کان کا مسئلہ ہو تو اس کے متعلق اس سے پوچھا جائے گا تو دونوں کانوں سے جتنا سنتا ہے اتنا ہی اگر ایک کان سے سنتا ہے تو وہ میرے نزدیک آنکھ کی طرح ہے اگر سننے میں شک ہو تو مختلف جگہوں سے آواز دے کر تجربہ کیا جائے گا اس سے قیاس کیا جائے گا اگر برابر ہو یا قریب قریب ہوں تو اسے اتنا دیا جائے گا جتنا اس کی قوت سماعت کو ضائع کیا گیا اور اس پر اس سے قسم اٹھائی جائے گی، اشہب نے کہا : درمیانہ درجہ کی قوت سماعت کا اندازہ لگایا جائے اگر آزمایا جائے اور اس کا قول مختلف ہو تو اس کے لیے کبھی بھی نہ ہوگا، عیسیٰ بن دینار نے کہا : جب اس کا قول مختلف ہوگا تو اس کے لیے کم از کم دیت ہوگی قسم کے ساتھ۔ مسئلہ نمبر : (
13
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والسن بالسن “۔ ابن المنذر (رح) نے کہا : رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ کے دانت کا قصاص لیا اور فرمایا : کتاب اللہ میں قصاص (کا حکم) ہے رسول اللہ ﷺ سے حدیث مروی ہے فرمایا : ” دانت میں پانچ اونٹ ہیں ‘۔ (
1
) (سنن ابن ماجہ، کتاب الدیات، صفحہ
194
ایضا حدیث نمبر
2640
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، ایضا، سنن ابی داؤد، حدیث نمبر
3954
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابن المنذر نے کہا : ہم ظاہر حدیث کے مطابق کہتے ہیں ثنایا دانتوں کو انیاب، اضر اس رباعیات “ دانتوں پر کوئی فضیلت نہیں، کیونکہ تمام ظاہر حدیث میں داخل ہیں اکثر اہل علم کا یہی قول ہے، جنہوں نے ظاہر حدیث کو لیا انہوں نے کسی دانت کو دوسرے دانت پر کوئی فضیلت نہیں دی، ان علماء میں عروہ بن زبیر، طاؤوس، زہری قتادہ، امام مالک، ثوری، امام شافعی، امام احمد، اسحاق، نعمان، اور ابن الحسن رحمۃ اللہ علیہم ہیں، یہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت معاویہ سے مروی ہے، اس میں دوسرا قول یہ ہے کہ ہم نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے اس کو روایت کیا انہوں نے سامنے والے دانتوں میں پانچ فرائض کا فیصلہ فرمایا یہ پچاس دینار ہیں اور ہر فریضہ کی قیمت دس دینار ہے اور داڑھوں میں ایک ایک اونٹ کا فیصلہ کیا، عطا کہتے ہیں : دانتوں، رباعیات، نابین، میں پانچ پانچ اونٹ ہیں اور باقی میں دو دو اونٹ ہیں اوپر والے اور نیچے والے دانت برابر ہیں، داڑھیں برابر ہیں۔ ابو عمر نے کہا : موطا میں امام مالک نے جو یحییٰ بن سعید بن مسیب ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے داڑھوں میں ایک ایک اونٹ کا فیصلہ کیا ہے تو اس کا مطب ہے داڑھیں بیس ہیں، دانت بارہ ہیں، چار ثنایا ہیں، چار رباعیات ہیں، چار انیاب ہیں، حضرت عمر ؓ کے قول پر دیت اسی اونٹ ہوں گے، دانتوں میں پانچ پانچ اونٹ ہیں، داڑھوں میں ایک ایک اونٹ ہے، حضرت معاویہ ؓ کے قول پر داڑھوں اور دانتوں میں پانچ پانچ اونٹ ہیں اس طرح دیت ایک سو ساٹھ اونٹ ہوجائے گی، سعید بن مسیب ؓ کے قول پر داڑھوں میں دو اونٹ ہیں یہ بیس داڑھیں ہیں اس کے لیے چالیس اونٹ واجب ہوں گے، دانتوں میں پانچ پانچ اونٹ ہیں، یا ساٹھ اونٹ ہوجائیں گے یہ سو اونٹوں کا تتمہ ہے یہ اونٹوں سے کامل دیت ہے، علماء کے درمیان اختلاف داڑھوں میں ہے نہ کہ دانتوں میں ہے، ابو عمر نے کہا : صحابہ اور تابعین میں سے علماء کا اختلاف دانتوں کی دیت میں ہے، ایکدوسرے پر اس ان کی تفضیل بھی بہت زیادہ ہے۔ حجت، امام مالک (رح) ابوحنیفہ (رح) اور ثوری (رح) کے نظریہ کے ساتھ قائم ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ” اونٹوں میں سے پانچ دانت کی دیت ہیں (
1
) (سنن ابن ماجہ، کتاب الدیات، صفحہ
194
، ایضا حدیث نمبر
2639
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور داڑھ بھی دانتوں میں سے دانت ہے، حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” انگلیاں برابر ہیں، دانت برابر ہیں، ثنیہ اور داڑھ برابر ہیں، یہ اور یہ برابر ہیں “ (
2
) (سنن ابن ابی داؤد، کتاب الدیات، جلد
2
صفحہ
271
، ایضا حدیث نمبر
3952
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ نص ہے جسے ابو داؤد نے تخریج کیا ہے، ابو داؤد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کو برابر لیا۔ (
3
) (سنن ابن ابی داؤد، کتاب الدیات، جلد
2
صفحہ
271
، ایضا حدیث نمبر
3952
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابو عمر ؓ نے کہا : ان آثار پر فقہاء اور جمہور اہل علم کا نظریہ ہے کہ دیت میں انگلیاں تمام برابر ہیں دیت ہیں، تمام دانت برابر ہیں، ثنایا اور داڑھیں، انیاب، ان میں سے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں جیسا کہ عمرو بن حزم کی کتاب میں ہے ثوری نے ازہر بن محارب سے روایت کیا ہے فرمایا : شریح کے پاس دو شخص جھگڑا لے کر آئے ایک نے دوسرے کے ثنیہ کو مارا تھا اور دوسرے نے اس کی داڑھ پر مارا تھا، شریح نے کہا : ثنیہ اور اس کا جمال، داڑھ اور اس کی منفعت دانت کے بدلے دانت ہے، ابو عمر نے کہا : آج تمام شہروں میں اسی پر عمل ہے۔ مسئلہ نمبر : (
14
) اگر کسی کا کسی نے دانت پر مارا اور وہ سیاہ ہوگیا تو اس میں پوری دیت ہوگی، یہ امام مالک (رح) لیث بن سعد کے نزدیک ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) نے یہی کہا ہے (
4
) (احکام القرآن لابن العربی جلد
2
صفحہ
629
) حضرت زید بن ثابت سے روایت کیا ہے گیا ہے اور یہی سعید بن مسیب، زہری، حسن، ابن سیرین، اور شریح کا قول ہے، حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے کہ اس میں دیت کا ثلث
3
؍
1
ہے۔ (
1
) (السنن الکبری للبیہقی، کتاب الدیات، جلد
8
، صفحہ
91
) یہی قول احمد اور اسحاق کا ہے، امام شافعی (رح) اور ابو ثور (رح) نے کہا : اس میں قاضی کا فیصلہ ہوگا، ابن عربی (رح) نے کہا : میرے نزدیک یہ خلاف ہے اس لیے اتفاق کی طرف رجوع کیا جائے گا، اگر اس کا سیاہ ہونا اس کی منفعت کو بھی ضائع کرچکا ہے، اور صرف اس کی صورت باقی ہے جیسے شل ہاتھ ہوتا ہے، اور اندھی آنکھ ہوتی ہے، دیت کے وجوب میں کوئی اختلاف نہیں پھر اگر اس کی منفعت میں سے کچھ باقی ہو یا کل منفعت باقی ہو تو منفعت میں سے جتنی کمی ہوئی ہے حکومت اتنی مقدار ثابت کرے گی اور حضرت عمر ؓ سے جو اس میں ثلث دیت مروی ہے وہ فقہ اور سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ (
2
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
629
) مسئلہ نمبر : (
15
) بچے کے دانت اکھیڑنے میں اختلاف ہے جب کہ وہ دودھ والے دانت گرنے سے پہلے ہو امام مالک، امام شافعی، اور اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علیہم کہتے ہیں : جب بچے کا دانت اکھیڑا جائے گا اور وہ پھر پیدا ہوجائے گا تو اکھیڑنے والے پر کچھ نہ ہوگا مگر امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) نے کہا ؛ جب وہ اس سے لمبائی میں کم پیدا ہو جو اس کے قریب والا ہے تو جتنا کم ہے اس کی مقدار اس سے چٹی وصول کی جائے گی، ایک جماعت نے کہا : اس میں قاضی فیصلہ کرے گا، یہی شعبی (رح) سے مروی ہے اور یہی نعمان کا قول ہے، ابن المنذر (رح) نے کہا : اس وقت تک تاخیر کی جائے گی یہاں تک کہ اہل معرفت کہیں کہ اب دانت نہیں اگے گا، جب ایسا ہوگا تو اس میں دیت کی مکمل مقدار ہوگی جیسا کہ ظاہر حدیث ہے، اگر وہ اگ گا تو چٹی واپس کردی جائے گی، اکثر اہل علم فرماتے ہیں ایک سال تک تاخیر کی جائے گی یہ حضرت علی ؓ ، حضرت زید ؓ ، حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) شریح (رح)، نخعی (رح) اور قتادہ (رح)، امام مالکرحمۃ اللہ علیہ، اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علیہم سے مروی ہے، امام شافعی (رح) نے اس کے لیے کوئی مدت متعین نہیں کی۔ مسئلہ نمبر : (
16
) جب بڑے شخص کا دانت اکھڑا گیا، پھر اس کی دیت لی گئی، پرھ وہ دانت اگ آیا تو امام مالک (رح) نے کہا : جو اس سے لیا گیا تھا وہ واپس نہیں کیا جائے گا، کو فیوں نے کہا : جب دانت اگ آئے گا تو اسے دیت واپس کی جائے گی : (
3
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
629
) امام شافعی (رح) کے دو قول ہیں : واپس کی جائے گی اور واپس نہیں کی جائے گی، کیونکہ یہ اس کا اگنا عادۃ جاری نہیں ہے اور نادر کے ساتھ حکم ثابت نہیں ہوتا یہ ہمارے علماء کا قول ہے، کو فیوں نے اس سے دلیل پکڑی ہے کہ اس کا عوض اگ آیا ہے، پس دیت واپس کی جائے گی اس کی اصل چھوٹے کا دانت ہے، امام شافعی (رح) نے فرمایا : اس پر اگر کسی دوسرے محرم نے جنایت کی حالانکہ وہ صحیح پیدا ہوچکا تھا تو اس میں مکمل چٹی ہوگی، ابن المنذر (رح) نے کہا : یہ اصح قول ہے، کیونکہ ان سے ہر ایک دانت کو اکھیڑنے والا ہے اور نبی مکرم ﷺ نے دانت میں پانچ اونٹوں کا فیصلہ فرمایا : (
4
) ۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الدیات، صفحہ
194
) مسئلہ نمبر : (
17
) اگر کسی آدمی نے کسی کا دانت اکھیڑ دیا، پھر اس نے دانت والے کو دانت لوٹا دیا، پھر وہ لگ گیا تو اس میں ہمارے نزدیک کچھ نہیں ہے (
5
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
629
) امام شافعی (رح) نے فرمایا : اس کے لیے دانت کو لوٹانا جائز نہیں، کیونکہ وہ نجس ہے، یہ ابن مسیب اور عطا کا قول ہے اگر وہ اسے لوٹا دے اور اس نے اس کے ساتھ نمازیں پڑھیں تو وہ ہر نماز کا اعادہ کرے جو اس نے اس کے ساتھ پڑھی تھیں، کیونکہ وہ دانت مردار تھا، اس طرح اگر کسی کا کان کاٹا گیا پھر خون کی حرارت کی وجہ سے وہ لوٹ گیا اور چمٹ گیا، عطا نے کہا : سلطان اسے اس کے اکھیڑنے پر مجبور کرے، کیونکہ وہ مردار اس نے چمٹایا ہے۔ (
1
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
630
) ابن عربی (رح) نے کہا : یہ غلط ہے، وہ شخص جاہل رہا جاہل رہا جس پر یہ مخفی رہا کہ اس کا دوبارہ اس صورت میں لوٹنا اس حکم ساتھ لوٹنے کا موجب نہیں، کیونکہ نجاست انفصال کی وجہ سے تھی، اور متصل لوٹ گیا اور احکام شریعت اعیان کے لیے صفات نہیں بلکہ یہ احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ کے قول کی طرف لوٹتے ہیں اور ان کے متعلق اس کے خبر دینے کی طرف لوٹتے ہیں۔ (
2
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
630
) میں کہتا ہوں : جو ابن عربی نے عطا سے حکایت کیا ہے وہ اس کے خلاف ہے وہ ابن المنذر نے ان سے روایت کیا ہے، ابن المنذر نے کہا : اس دانت میں اختلاف ہے جو قصاصا اکھیڑا گیا پھر وہ اسی جگہ لوٹا دیا گیا اور وہ اگ آیا، عطا خرسانی اور عطا بن ابی رباح نے کہا : اس میں کوئی حرج نہیں، ثوری، احمد اور اسحاق نے کہا : اسے اکھیڑا جائے گا، کیونکہ قصاص عیب کے لیے ہوتا ہے، امام شافعی (رح) نے کہا : اس پر دوبارہ لگایا جائز نہیں، کیونکہ وہ نجس ہے سلطان اسے اکھیڑنے پر مجبور کرے۔ مسئلہ نمبر : (
18
) اگر اس کے لیے زائد دانت ہو اور وہ اکھیڑ دیا گیا تو اس میں قاضی کا فیصلہ ہوگا، فقہاء الامصار کا یہی قول ہے، حضرت زید بن ثابت ؓ نے کہا : اس میں دیت کا تہائی ہے ابن عربی نے کہا : تقدیر میں اس کی کوئی دلیل نہیں پس فیصلہ زیادہ عدل ہے۔ (
3
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
630
) ابن المنذر نے کہا : جو حضرت زید سے روایت کیا گیا ہے وہ صحیح نہیں ہے، حضرت علی ؓ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : دانت جب اس کا بعض توڑا جائے گا تو مالک کو اس کے حساب سے دیا جائے گا (
4
) (السنن الکبر للبیہقی کتاب الدیات، جلد
8
، صفحہ
91
) یہ امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) وغیرہ کا قول ہے۔ میں کہتا ہوں : جو اللہ تعالیٰ نے بطور نص اعضاء ذکر فرمائے وہ تو یہاں تک ختم ہوگئے اور ہونٹوں اور زبان کا ذکر نہیں فرمایا۔ مسئلہ نمبر : (
19
) جمہور علماء نے فرمایا : ہونٹوں میں دیت ہے اور ہر ایک ہونٹ میں نصف دیت ہے اوپر والے کو نیچے والے پر کوئی فضیلت نہیں، حضرت زید بن ثابت ؓ ، سعید بن مسیب ؓ اور زہری (رح) سے مروی ہے کہ اوپر والے ہونٹ میں ثلث
3
؍
1
دیت ہے اور نیچے والے ہونٹ میں
3
؍
2
دو ثلث دیت ہے ابن المنذر نے کہا : میں پہلے قول کا قائل ہوں، کیونکہ رسول اللہ سے مروی ہے فرمایا : ” ہونٹوں میں دیت ہے (
5
) (مؤطا امام مالک، کتاب العقول، صفحہ
671
) نیز دونوں ہاتھوں میں دیت ہے اور ان کے منافع مختلف ہیں اور ہونٹوں میں سے جتنا کاٹا جائے گا اس کے حساب سے دیت ہوگی، رہی زبان تو نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے فرمایا ” زبان میں دیت ہے (
6
) (مؤطا امام مالک، کتاب العقول، صفحہ
671
) اس قول پر اہل مدینہ، اہل کوفہ، اصحاب حدیث اہل الرائے رحمۃ اللہ علیہم میں سے اہل علم کا اجماع ہے، یہ ابن المنذر نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
20
) اس شخص کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے جو کسی کی زبان پر جنایت کرتا ہے اور اس کی زبان میں سے کچھ کاٹ دیتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ بعض کلام نہیں کرسکتا ہے، اکثر اہل علم نے کہا : اٹھائیس حروف ہیں جتنے وہ ادا نہیں کرسکتا اس کی مقدار کو دیکھا جائے گا اس کے مطابق دیت ہوگی، اگر وہ بالکل کلام نہیں کرسکتا تو اس میں مکمل دیت ہوگی، یہ امام مالک (رح)، امام شافعی (رح)، احمد (رح) اسحاق (رح) اور اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے، امام مالک (رح) نے کہا : زبان میں قصاص نہیں، کیونکہ قصاص کو پوری طرح حاصل کرنا ممکن نہیں اگر ممکن ہو تو قصاص اصل ہے۔ (
1
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
630
) مسئلہ نمبر : (
21
) گونگے کی زبان کاٹ دی گئی ہو تو اس میں اختلاف ہے، شعبی (رح) امام مالک رحمۃ اللہ علیہاہل مدینہ، اہل عراق، امام شافعی (رح)، ابوثور (رح) نعمان (رح) اور ان کے ساتھیوں نے کہا : اس میں فیصلہ ہے، (
2
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
630
) ابن المنذر نے کہا : اس میں دو قول ہیں۔ (
1
) نخعی کا قول ہے کہ اس میں دیت ہے، (
3
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
630
) (
2
) قتادہ ؓ کا قول ہے کہ اس میں دیت کا تہائی ہے۔ ابن المنذر (رح) نے کہا : پہلا قول اصح ہے، کیونکہ جو اس کے متعلق کہا گیا ہے وہ کم از کم ہے، ابن عربی (رح) نے کہا : اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے اعضا کا ذکر فرمایا اور باقی کو ان پر قیاس کے لیے چھوڑ دیا، ہر عضو میں قصاص ہوتا ہے جب قصاص لینا ممکن ہو اور اس پر موت کا اندیشہ نہ ہو اسی طرح ہر عضو جس کی منفعت باطل ہو اور اس کی صورت باقی ہو تو اس میں قصاص نہیں ہے اس میں دیت ہے کیونکہ اس میں قصاص ممکن نہیں۔ (
4
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
631
) مسئلہ نمبر : (
22
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والجروح قصاص “۔ زخموں میں قصاص ہے سورة البقرہ میں یہ گزر چکا ہے اس میں قصاص نہیں جب میں جسم کے ضیاع کا اندیشہ ہو اور جو قصاص تک نہ پہنچتا ہو مگر یہ کہ مارنے والا خطا کرے یا زیادتی یا کمی کر دے، جان بوجھ کر زخم لگانے کی وجہ سے قصاص ہوگا اگر ممکن ہو، یہ تمام قتل عمد میں ہے، رہا خطا تو اس میں دیت ہوتی ہے اسی طرح خطاء زخم لگا تو اس میں دیت ہوگی، صحیح مسلم میں حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ ربیع ؓ کی بہن ام حارثہ نے ایک انسان کو زخمی کردیا اور وہ جھگڑا نبی مکرم ﷺ کے پاس لے گیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” قصاص ہوگا، قصاص ہوگا “۔ ام الربیع نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ کیا فلانۃ سے قصاص لیا جائے گا ؟ اللہ کی قاسم ان سے قصاص نہیں لیا جائے گا نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” سبحان اللہ ! اے ام الربیع ! کتاب اللہ کا حکم قصاص ہے “۔ ام الربیع نے کہا : نہیں اللہ کی قسم اس سے کبھی قصاص نہیں لیاجائے گا، وہ یہی کہتی رہی حتی کہ انہوں نے دیت قبول کرلی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں اگر وہ اللہ کے بھروسہ پر قسم اٹھا دیں تو اللہ تعالیٰ اسے پورا فرما دیتا ہے۔ “ (
5
) (صحیح مسلم، کتاب القسامہ، جلد
2
، صفحہ
59
) میں کہتا ہوں : اس حدیث میں زخمی عورت جاریۃ تھی اور زخم اس کے دانت کا توڑنا تھا، نسائی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ان کی پھوپھی نے جاریہ کا دانت توڑ دیا تو اللہ کے نبی نے قصاص کا فیصلہ کیا، ان کے بھائی انس بن نضر نے کہا : کیا فلانی کا دانت توڑا جائے گا ؟ نہیں قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا فرمایا : پہلے اس کے اہل سے وہ عفو اور دیت کا سوال کر رہے تھے جب اس کے بھائی انس کے چچا نے قسم اٹھائی، جنگ احد میں یہ شہید ہوئے تھے تو قوم معاف کرنے پر راضی ہوگئی، نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” اللہ کے بندوں میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں اگر وہ اللہ کے بھروسہ پر قسم اٹھائیں تو اللہ اسے پورا کردیتا ہے “۔ ابو داؤد نے اس کو تخریج کیا ہے میں نے امام احمد بن حنبل (رح) کو سنا ان سے پوچھا گیا : دانت کا کیسے قصاص لیا جائے گا ؟۔ انہوں نے کہا : ٹھنڈا کیا جائے گا (
1
) (سنن ابی داؤد کتاب الدیات، جلد
2
، صفحہ
275
) میں کہتا ہوں : دونوں حدیثوں میں تعارض نہیں ہے۔ کیونکہ ہوسکتا ہے ان میں سے ہر ایک نے قسم اٹھائی ہو اور اللہ نے ان کی قسم پوری کی ہو، اس میں کرامات اولیاء کا ثبوت ہے جیسا کہ اس کا بیان حضرت خضر (علیہ السلام) کے واقعہ میں آئے گا ان شاء اللہ۔ ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اولیاء کی کرامات پر ایمان لانے پر ثابت رکھے اور بغیر محنت اور فتنہ ان کے لڑی میں پرو وے۔ مسئلہ نمبر : (
23
) علماء کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : (آیت) ” والسن بالسن “۔ یہ عمدا ہو تو پھر ہے، جس نے عمدا کسی کا دانت توڑ دیا تو حضرت انس ؓ کی حدیث کے مطابق اس میں قصاص ہے (
2
) (صحیح بخاری کتاب الدیات، جلد
2
، صفحہ
1018
) باقی جسم کی ہڈیوں میں علماء کا اختلاف ہے جس وہ عمدا توڑی گئی ہو، امام مالک (رح) نے فرمایا : جسم کی تمام ہڈیوں میں قصاص ہے مگر جو نفس کو ضائع کر دے مثلا ران، صلب، دماغ، کا زخم منقلہ (جو ہڈی منتقل کر دے) ہاشمہ (جو ہڈی توڑ دے) ان میں دیت ہے، کو فیوں نے کہا : سوائے دانت کے کسی ہڈی میں قصاص نہیں ہے جو توڑی جائے گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) والسن بالسن “۔ یہ لیث (رح) اور امام شافعی (رح) کا قول ہے، امام شافعی (رح) نے کہا : کبھی توڑنا، توڑنے کی طرح نہیں ہوسکتا پس یہ ممنوع ہے، طحاوی نے کہا : علماء کا اتفاق ہے کہ سر کی ہڈی میں قصاص نہیں ہے، اسی طرح تمام ہڈیوں میں قصاص نہیں ہے، امام مالک (رح) کی حجت دانت میں حضرت انس ؓ کی حدیث ہے اسی طرح تمام ہڈیوں کا حکم ہے سوائے ایک ہڈی کے علماء کا اجماع ہے کہ اس میں قصاص نہیں ہے، کیونکہ اس میں نفس کے ضیاء کا اندیشہ ہے، ابن المنذر (رح) نے کہا : جس نے کہا : ہڈی میں قصاص نہیں وہ حدیث کی مخالفت کرنے والا ہے اور نظر کی طرف خروج خبر کے ہوتے ہوئے جائز نہیں۔ میں کہتا ہوں : اس پر (آیت) ” فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم (بقرہ :
194
) اور ارشاد : (آیت) ” وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ “۔ (النحل :
126
) دلالت کرتا ہے اور جس پر علماء کا اجماع ہے وہ ان آیات میں داخل نہیں (وباللہ التوفیق) مسئلہ نمبر : (
24
) ابو عبید نے کہا : نبی مکرم ﷺ کی موضحہ کے بارے میں حدیث ہے (ا) (سنن ابن ماجہ، باب الموضعۃ، حدیث نمبر
2644
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور دوسرے زخموں کے بارے میں غیر سے مروی ہے، اصمعی وغیرہ نے کہا : اس کی کلام کا بعض، بعض میں داخل ہے، زخموں میں سے پہلا حارصہ زخم ہے جو جلد کو تھوڑا سا چیز دیتا ہے، اسی سے ہے حرص القصار الثوب ہے جس کا معنی اس نے کپڑے کو چیر دیا اس کو الحرصہ بھی کہا جاتا ہے، پھر الباضعۃ ہے جو جلد کے بعد گوشت کو کاٹ دیتا ہے پھر المتلاحمۃ ہے جو صرف جلد میں لگتا ہے اور اس جھلی تک نہیں پہنچتا جو گوشت اور ہڈی کے درمیان ہوتی ہے واقدی (رح) نے کہا : یہ ہمارے نزدیک الملطی ہے، دوسروں نے کہا : یہ الملطاۃ ہے فرمایا : یہ وہ ہے جس کے بارے میں حدیث ہے ” یقضی فی الملطاۃ بدمھا پھر الموضعۃ زخم ہے وہ یہ وہ زخم ہے جس سے ہڈی بھی ظاہر ہوجاتی ہے، ابوعبید نے کہا : زخموں میں قصاص نہیں ہے مگر صرف موضحہ میں، کیونکہ اس کے علاوہ کے لیے کوئی حد نہیں ہے، دوسرے زخموں میں دیت ہے پھر الھاشمۃ ہے جو ہڈی کو توڑ دیتا ہے پھر النقلۃ ہے جو ہڈی کو توڑ دیتا ہے۔ پھر الآمۃ ہے اس کو المامومۃ بھی کہا جاتا ہے یہ وہ ہے جو دماغ تک پہنچتا ہے، ابو عبید نے کہا : یقضی فی الملطاۃ بدمھا جب زخم لگانے والا زخم لگائے گا تو اس پر زخمی کے لیے زخم لگانے کے وقت فیصلہ کیا جائے گا اور اس میں تاخیر نہیں کی جائے گی، اور فرمایا : اور ہمارے نزدیک تمام زخموں میں تاخیر کی جائے گی حتی کہ اس کے انجام کو دیکھا جائے گا پھر اس وقت اس میں حکم لگایا جائے گا، ابو عبید نے کہا : ہمارے نزدیک تمام زخموں میں تاخیر کی جائے گی، ہمیں ہشیم نے بتایا انہوں نے حصین سے روایت کیا فرمایا : حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا : موضحہ سے جو کم زخم ہے وہ خدوش ہے اور اس میں صلح ہے۔ (
1
) (السنن الکبری للبہقی، کتاب الدیات، جلد
8
، صفحہ
83
) حسن بصری (رح) نے کہا : موضحہ سے کم میں قصاص نہیں ہے، امام مالک (رح) نے کہا : موضحہ سے کم میں یعنی ملطی، دامیہ، باضعہ میں قصاص ہے اسی طرح کو فیوں نے کہا : اور انہوں نے سمحاق کا اضافہ کیا ہے، یہ ابن المنذر نے حکایت کیا ہے، ابو عبید نے کہا : الدامیۃ وہ زخم ہے، جس سے خون نکلے، الدامعہ وہ ہے جس سے خون بہے۔ موضحہ سے کم میں قصاص نہیں، جوہری (رح) نے کہا : دامیہ وہ زخم ہے جس سے خون نہیں بہتا۔ ہمارے علماء نے فرمایا : وامیہ وہ ہے جس سے خون بہتا ہے موضحہ کے بعد قصاص نہیں ہے ہاشمہ ہڈی نے لیے ہے اور منقلۃ میں خاص اختلاف ہے۔ الامہ جو دماغ تک پہنچتا ہے، دامغۃ جو دماغ کے پردے کو پھاڑنے والا ہے اور جسم کے ہاشمۃ زخم میں قصاص ہے مگر جو مخوف ہو جیسے ران وغیرہ کا زخم رہا، ھاشمۃ الراس (سر کا زخم) تو ابن القاسم نے کہا : اس میں قصاص نہیں ہے، رہے اطراف تو تمام جوڑوں میں قصاص ہے مگر ان میں سے جس سے نفس کے ضیاع کا خدشہ ہو، جوڑوں سے مراد ناک کی بینی کا بعض، کانوں کا بعض، ذکر کا بعض، پلکوں کا بعض، ہونٹوں کا بعض ہے، کیونکہ یہ تقدیر کو قبول کرتے ہیں۔ زبان کے بارے میں دو روایتیں ہیں، ہڈیوں کو توڑنے میں قصاص ہے مگر جو انسان کو تلف کرنے والی ہوں جیسے سینے گردن پیٹھ، ران وغیرہ کی ہڈیاں، بازو کی ہڈی توڑنے میں قصاص ہے، ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے اس شخص کی ران توڑنے کا فیصلہ فرمایا جس نے کسی کی ران توڑی تھی۔ عبدالعزیز بن عبداللہ بن خالد بن اسید نے مکہ میں اسی طرح کیا تھا، حضرت عمر بن عبدالعزیز سے مروی ہے کہ انہوں نے ایسا کیا تھا یہ امام مالک کا مذہب ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے، فرمایا علماء کے نزدیک اس پر اجماع ہے اور ہمارے شہروں میں اس شخص کے بارے میں معمول یہ ہے جو کسی کو مارتا ہے پھر ہاتھ اس کی ہڈی کو توڑ دیتا ہے تو اس سے قصاص لیاجائے گا۔ مسئلہ نمبر : (
25
) علماء نے فرمایا : سر میں زخم اور بدن میں زخم جو ہوتے ہیں ان میں اہل علم کا اجماع ہے کہ موضحہ سے کم میں چٹی ہے جیسا کہ ابن المنذر نے ذکر کیا ہے اور اس چٹی میں اختلاف ہے۔ موضحہ سے جو کم زخم ہیں وہ پانچ ہیں : دامیہ، دامعۃ، باضعہ، متلاحمہ اور السحاق “۔ امام مالک (رح)، امام شافعی (رح)، احمد (رح) اور اسحاق (رح) اور اصحاب الرائے نے کہا : دامیۃ میں قاضی کا فیصلہ ہے اور باضعہ میں فیصلہ ہے اور متلاحمہ میں بھی فیصلہ ہے، عبدالرزاق (رح) حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : دامیۃ میں اونٹ ہے، باضعۃ میں دو اونٹ ہیں، متلاحمۃ میں تین اونٹ ہیں، سمحاق، میں چار اونٹ ہیں، موضحۃ میں پانچ اونٹ ہیں، ہاشمۃ میں دس اونٹ ہیں، منقلۃ میں پندرہ اونٹ ہیں، مامومۃ میں دیت کا تہائی ہے اور جو شخص جو کسی کو مارتا ہے حتی کہ اس کی عقل ضائع ہوجائے تو اس میں پوری دیت ہے یا وہ اسے مارے حتی کہ اس کے ناک سے آواز نکل جائے اور بات نہ سمجھا سکے تو اس میں پوری دیت ہوگی یا آنکھ کی پلکوں میں دیت کا چوتھائی ہے اور پستان کے منہ میں چوتھائی دیت ہے۔ (
1
) (مصنف عبدالرزاق، کتاب العقول جلد
9
، صفحہ
207
) ابن المنذر (رح) نے کہا : حضرت علی ؓ سمحاق (وہ زخم جو ہڈی اور گوشت کے درمیانی جھلی تک پہنچ جائے) میں زید کے قول کی مثل مروی ہے۔ حضرت عمر اور حضرت عثمان سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ان میں موضحہ کا نصف ہے، حسن بصری (رح)، عمر بن عبدالعزیز (رح) اور نخعی نے کہا : اس میں فیصلہ ہوگا (
2
) (مصنف عبدالرزاق، کتاب العقول جلد
9
، صفحہ
207
) اسی طرح امام مالک (رح)، امام شافعی (رح) اور احمد (رح) نے کہا ہے، علماء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، کہ موضحۃ میں پانچ اونٹ میں جیسا کہ عمرو بن حزم کی حدیث میں ہے اس میں موضحہ میں پانچ اونٹ ہیں، اور اہل علم کا اجماع ہے کہ موضحہ سر وہ چہرے میں ہوگا اور چہرے کے موضحہ کو سر کے موضحہ پر فضیلت میں اختلاف ہے۔ (
3
) (مصنف عبدالرزاق، کتاب العقول جلد
9
، صفحہ
207
) حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ یہ دونوں برابر ہیں ان کے قول کے مطابق تابعین کی ایک جماعت نے کہا ہے اور یہی امام شافعی (رح) اور اسحاق (رح) کا قول ہے، سعید بن مسیب (رح) سے چہرے کے موضحہ کی سر کے موضحہ پر دو گنا دیت مروی ہے، احمد نے کہا : چہرے کا موضحہ اس لائق ہے کہ اس میں زیادہ دیت رکھی جائے، امام مالک نے کہا : المامومہ، المنقلہ اور الموضحہ صرف سر اور چہرے میں ہوتے ہیں اور مومومہ خاصہ سر میں ہوتا ہے جب وہ دماغ تک پہنچ جائے، فرمایا : موضحہ وہ ہوتا ہے جو سر کی کھوپڑی میں ہوتا ہے اور جو اس سے نیچے ہے وہ گردن سے ہے اور وہ موضحہ نہیں ہے، امام مالک (رح) نے کہا : ناک سر میں سے نہیں ہے اس میں موضحہ نہیں ہے اسی طرح نیچے جو تھوڑی پر زخم ہے اس میں موضحہ نہیں ہے، جو سر اور چہرہ کے علاوہ موضحہ ہے اس میں اختلاف ہے۔ اشہب اور ابن القاسم نے کہا : جس کے موضحہ، منقلہ، مامومۃ میں اجتہاد ہے اس میں مخصوص چٹی نہیں ہے، ابن المنذر نے کہا : یہ امام مالک، ثوری (رح) امام شافعی (رح) احمد (رح) اسحاق (رح) کا قول ہے اور ہم بھی یہی کہتے ہیں، عطا خراسانی سے مروی ہے کہ موضحہ جب انسان کے جسم میں ہو تو اس میں پچیس دینار ہیں ابو عمر ؓ نے کہا : امام مالک (رح)، امام شافعی (رح) اور ان کے اصحاب کا اتفاق ہے کہ جس نے کسی کو دو مامومہ اور دو موضحہ یا تین مامومۃ یا موضحات لگائے یا ایک ضرب میں اسے زیادہ زخم لگائے اگر وہ پھٹ کر ایک زخم بن گئے ہوں تو ان تمام میں ایک کامل دیت ہوگی رہا ہاشمۃ (زخم) ہمارے نزدیک اس میں دیت نہیں بلکہ فیصلہ ہے۔ ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہنے کہا : میں نے مدنی علماء کی کتب میں ہاشمۃ کا ذکر نہیں پایا بلکہ امام مالک (رح) نے اس شخص کے بارے میں کہا جس نے کسی کا ناک توڑ دیا اگر وہ خطا تھا تو اس میں اجتہاد ہے، حسن بصری (رح) نے کہا : ہاشمۃ میں کوئی چیز مقرر نہیں۔ ابو ثور نے کہا : اگر ان میں اختلاف ہو تو اس میں فیصلہ ہے، ابن المنذر (رح) نے کہا : نظر اس پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس میں نہ سنت ہے اور نہ اجماع، قاضی ابو الولید الباحی نے کہا : اس میں وہی ہوگا جو موضحہ میں ہوتا ہے، اگر منقلہ بن جائے تو پندرہ اونٹ ہیں، اگر مامومہ بن جائے تو تہائی دیت ہے، ہم نے اکثر علماء کو پایا اور ہمیں اہل علم کی رائے پہنچی وہ ہاشمۃ میں دس اونٹ مقرر کرتے ہیں، ہم نے یہ قول حضرت زید بن ثابت سے روایت کیا۔ یہی قتادہ (رح) اور عبداللہ بن الحسن اور امام شافعی (رح) کا قول ہے، ثوری (رح) اور اصحاب الرائے نے کہا : اس میں ہزار درہم ہے اور اس کی مراد دیت کا دسواں ہے، رہا منقلہ تو ابن المنذر (رح) نے کہا : نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے فرمایا : منقلہ میں پندرہ اونٹ ہیں (
1
) (مصنف عبدالرزاق، کتاب العقول جلد
9
، صفحہ
214
) اس قول پر علماء کا اجماع ہے، ابن المنذر (رح) نے کہا : اہل علم نے کہا : منقلہ وہ ہے جس سے ہڈیاں منتقل ہوجاتی ہیں، امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح)، احمد اور اصحاب الرائے نے کہا یہی قتادہ (رح) اور ابن شبرمہ کا قول ہے کہ منقلہ میں قصاص نہیں ہے، ہم نے حضرت ابن زبیر سے روایت کیا، ان سے ثابت نہیں ہے، کہ انہوں نے منقلہ کا قصاص لیا، ابن المنذر (رح) نے کہا : پہلا قول اولی ہے، کیونکہ میں کسی ایک کو نہیں جانتا جو اس میں مخالفت کرتا ہو۔ رہا مومۃ تو ابن المنذررحمۃ اللہ علیہ نے کہا : نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے فرمایا : ” مامومۃ میں دیت کا تہائی ہے “ (
2
) (مؤطا امام مالک، کتاب العقول صفحہ
666
) اس پر علماء کا اجماع ہے سوائے مکحول کے کسی کو نہیں جانتا جس نے اس میں مخالفت کی ہو، مکحول نے کہا : جب مامومۃ عمدا ہو تو اس میں دو تہائی دیت ہے، جب خطا ہو تو اس میں ایک تہائی دیت ہے، یہ شاذ قول ہے، میں بھی پہلے قول کے مطابق کہتا ہوں : مامومۃ میں قصاص کے بارے میں اختلاف ہے اکثر اہل علم نے فرمایا : اس میں قصاص نہیں ہے، حضرت ابن زبیر سے مروی ہے کہ انہوں نے مامومۃ کا قصاص لیا تو لوگوں نے اس پر انکار کیا، عطا نے کہا : ہم نے کوئی ایسا آدمی نہیں جانا جس نے حضرت ابن زبیر ؓ سے پہلے قصاص لیاہو، رہا جائفہ تو اس میں دیت کا تہائی ہے جیسا کہ عمرو بن حزم کی حدیث ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں سوائے اس روایت کے جو مکحول سے مروی ہے انہوں نے کہا : جب یہ عمدا ہو تو اس میں دو تہائی دیت ہے، اگر خطا ہو تو ایک تہائی دیت ہے، جائفہ وہ ہے جو جوف تک پھٹ جائے اگرچہ سوئے کے داخل ہونے جتنا ہو اگر دو جہتوں سے آر پار ہوجائے تو وہ دو جائفے شمار ہوں گے اس میں دو تہائی دیت ہے، اشہب نے کہا : حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے آر پار ہونے والے جائفہ کی دیت، دو جائفہ کے برابر فرمائی، عطا، امام مالک (رح)، امام شافعی (رح) اور اصحاب الرائے کہتے ہیں : جائفہ میں قصاص نہیں ہے، ابن المنذر نے کہا : میں بھی یہی کہتا ہوں۔ مسئلہ نمبر : (
26
) اللطعمہ (طمانچہ) اور اس کے مشابہ کے قصاص کے بارے اختلاف ہے، بخاری نے حضرت ابوبکر ؓ حضرت علی ؓ حضرت ابن زبیر ؓ اور حضرت سوید بن مقرن رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے روایت کیا ہے کہ انہوں طمانچہ کا قصاص لیا (
3
) (صحیح بخاری، کتاب الدیات، جلد
2
، صفحہ
1018
) حضرت عثمان ؓ اور حضرت خالد بن ولید سے اسی کی مثل مروی ہے، یہ شعبی (رح) اور اہل حدیث کی جماعت کا قول ہے، لیث نے کہا : اگر طمانچہ آنکھ میں ہو تو اس میں قصاص نہیں کیونکہ آنکھ کے ضیاع کا اندیشہ ہے اور سلطان اس کو سزا دے، اگر رخسار پر ہو تو اس میں قصاص ہے، ایک طائفہ نے کہا : طمانچہ میں قصاص نہیں ہے حسن اور قتادہ سے یہ مروی ہے اور امام مالک (رح)، کو فیوں اور امام شافعی (رح) کا یہی قول ہے، امام مالکرحمۃ اللہ علیہ نے حجت پکڑتے ہوئے کہا : مریض، کمزور کا طمانچہ قوی کے طمانچہ کی طرح نہیں ہے۔ کالے غلام کو ایک عظیم شخص کی مثل طمانچہ نہیں مارا جائے گا، ان میں اجتہاد ہے، کیونکہ ہم طانچہ کی مقدار سے ناواقف ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
27
) کوڑے مارنے کی وجہ سے قصاص میں اختلاف ہے لیث اور حسن نے کہا : اس سے قصاص لیا جائے گا اور تعدی کے لیے اس پر زیادہ بھی کیا جائے گا، ابن القاسم نے کہا : اس سے قصاص لیا جائے گا اور کو فیوں اور امام شافعی کے نزدیک قصاص نہیں لیا جائے گا مگر یہ کہ وہ اسے زخمی کر دے، ، امام شافعی (رح) نے فرمایا : اگر کوڑے نے زخمی کردیا تو اس میں فیصلہ ہوگا، ابن المنذررحمۃ اللہ علیہ نے کہا : کوڑے یا لاٹھی یا پتھر میں سے جو لگا اور وہ عمدا تھا تو اس میں قصاص ہے، یہ اصحاب الحدیث کی ایک جماعت کا قول ہے، بخاری میں ہے حضرت عمر ؓ نے درہ مارنے کی وجہ سے قصاص لیا اور حضرت علی ؓ نے تین کوڑوں کی وجہ قصاص لیا شریح نے کوڑے اور خموش (خراش) کی وجہ سے قصاص لیا (
1
) (صحیح بخاری، کتاب الدیات، جلد
2
، صفحہ
1018
) ابن بطال نے کہا : نبی مکرم ﷺ کے اپنے گھر والوں کو دوائی پلانے کی حدیث اس کے لیے حجت ہے جس نے کہا : ہر تکلیف میں قصاص ہے اگرچہ زخمی نہ بھی ہو۔ مسئلہ نمبر : (
28
) عورتوں کے زخموں کی دیت میں اختلاف ہے، موطا میں سے امام مالکرحمۃ اللہ علیہ نے یحییٰ بن سعید سے انہوں نے سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں : مرد کی دیت کے تہائی تک تو عورت کی دیت برابر ہے عورت کی انگلی، مرد کی انگلی کی طرح ہے، اور اس کا دانت مرد کے دانت کی طرح ہے، اس کاموضحہ، مرد کے موضحہ کی طرح ہے، اس کا منقلہ مرد کے منقلہ کی طرح ہے۔ (
2
) ( مؤطا امام مالک، کتاب العقول، صفحہ
670
) ابن بکیر نے کہا : امام مالک (رح) نے کہا : جب کوئی ایسی جنایت عورت پر کی جائے جو مرد کی دیت کی تہائی تک پہنچ جائے تو وہ مرد کی دیت سے نصف ہوگی (
3
) ( مؤطا امام مالک، کتاب العقول، صفحہ
670
) ابن المنذر نے کہا : ہم نے یہ قول حضرت عمر ؓ اور حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا ہے، اور سعید بن مسیب ؓ ، عمر بن عبدالعزیز (رح) حضرت عروہ بن زبیر، زہری، قتادہ، ابن ہرمز، امام مالک، امام احمد بن حنبل، عبدالملک بن الماجشون رحمۃ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ہے، ایک جماعت نے کہا ؛ عورت کی دیت مرد کی دیت سے نصف ہے خواہ وہ زیادہ ہو یا کم ہو، ہم نے یہ قول حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا ہے (
4
) ( مؤطا امام مالک، کتاب العقول، صفحہ
670
) ثوری، شافعی، ابو ثور، نعمان رحمۃ اللہ علیہم اور ان کے شاگردوں نے بھی یہی کہا ہے انہوں نے یہ حجت پکڑی ہے کہ کثیردیت پر جب اجماع ہے تو قلیل بھی اس کی مثل ہے ہم بھی یہی کہتے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
29
) قاضی عبدالوہاب نے کہا ہر وہ عضو جس میں صرف جمال ہے منفعت کوئی نہیں ہے تو اس میں فیصلہ ہوگا جیسے ابرو، داڑھی، کے بالوں کا ضائع کردینا، سر کے بالوں کو ضائع کردینا، مرد کے پستان وغیرہ، اور فیصلہ کا طریقہ یہ ہوگا کہ جس پر جنایت کی گئی ہے اس کی قیمت لگائی جائے گی قیمت میں سے جتنی کم ہوگی وہ دیت کی جزا ہوگی خواہ وہ کہیں تک پہنچ جائے، یہ ابن المنذر (رح) نے اہل علم سے حکایت کیا ہے فرمایا : اس میں اہل معرفت میں سے دو ثقہ آدمیوں کا قول قبول کیا جائے، گا بعض علماء نے فرمایا : ایک عادل شخص کا قول قبول کیا جائے گا واللہ سبحانہ اللہ تعالیٰ علم۔ یہ زخمیوں اور اعضاء کے تمام احکام تھے جو اس آیت کے معنی کے ضمن میں تھے، اکتفا کرنے والے کے لیے یہ کافی ہیں اللہ تعالیٰ ہدایت کی توفیق دینے والا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
30
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فمن تصدق بہ فھو کفارۃ لہ “۔ شرط اور جواب شرط ہے یعنی جس نے قصاص کو معاف کردیا تو وہ اس کے لیے کفارہ ہوگا، یعنی معاف کرنے والے کے لی (
1
) (زاد المسیر، جلد
2
، صفحہ
218
) بعض علماء نے فرمایا : زخمی کرنے والے کے لیے کفارہ ہوگا اور اس سے آخرت میں جنابت کا مواخذہ نہ ہوگا، کیونکہ وہ اس مقام پر کھڑا ہوگا کہ اس سے حق لیا جائے گا اور اس پر معاف کرنے والے کا اجر ہوگا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ دو قول ذکر کیے ہیں : پہلا قول اکثر صحابہ اور بعد والے لوگوں کا ہے۔ دوسرا قول حضرت ابن عباس اور مجاہد سے مروی ہے اور ابراہیم نخعی اور شعبی (رح) سے اس کے خلاف مروی ہے، پہلا قول اظہر ہے، کیونکہ ضمیر عائد مذکور کی طرف لوٹتی ہے اور وہ ” من “ ہے۔ حضرت ابودرداء ؓ نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے ” جس مسلمان کو جسم میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے پھر وہ اسے معاف کر دیتاتو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند کرتا اور ایک گناہ معاف کردیتا ہے “ (
2
) (جامع ترمذی کتاب الدیات جلد
1
صفحہ
167
) ابن عربی نے کہا : جو کہتا ہے جب مجروح (زخمی) زخمی کرنے والے کو معاف کر دے گا تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کردے گا اس پر کوئی دلیل قائم نہیں، پس اس کا کوئی معنی نہیں (
3
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
632
)
Top