Mufradat-ul-Quran - Al-Maaida : 45
وَ كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ فِیْهَاۤ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ١ۙ وَ الْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَ الْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّ١ۙ وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌ١ؕ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ١ؕ وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
وَكَتَبْنَا : اور ہم نے لکھا (فرض کیا) عَلَيْهِمْ : ان پر فِيْهَآ : اس میں اَنَّ : کہ النَّفْسَ : جان بِالنَّفْسِ : جان کے بدلے وَالْعَيْنَ : اور آنکھ بِالْعَيْنِ : آنکھ کے بدلے وَالْاَنْفَ : اور ناک بِالْاَنْفِ : ناک کے بدلے وَالْاُذُنَ : اور کان بِالْاُذُنِ : کان کے بدلے وَالسِّنَّ : اور دانت بِالسِّنِّ : دانت کے بدلے وَالْجُرُوْحَ : اور زخموں (جمع) قِصَاصٌ : بدلہ فَمَنْ : پھر جو۔ جس تَصَدَّقَ : معاف کردیا بِهٖ : اس کو فَهُوَ : تو وہ كَفَّارَةٌ : کفارہ لَّهٗ : اس کے لیے وَمَنْ : اور جو لَّمْ يَحْكُمْ : فیصلہ نہیں کرتا بِمَآ : اس کے مطابق جو اَنْزَلَ : نازل کیا اللّٰهُ : اللہ فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ : وہ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اور ہم نے ان لوگوں کے لیے تورات میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں کا اسی طرح بدلا ہے لیکن جو شخص بدلا معاف کردے وہ اس کیلئے کفّارہ ہوگا۔ اور جو خدا کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ بےانصاف ہیں۔
وَكَتَبْنَا عَلَيْہِمْ فِيْہَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ۝ 0ۙ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ۝ 0ۙ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ۝ 0ۭ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِہٖ فَہُوَكَفَّارَۃٌ لَّہٗ۝ 0ۭ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝ 45 كتب ( فرض) ويعبّر عن الإثبات والتّقدیر والإيجاب والفرض والعزم بِالْكِتَابَةِ ، ووجه ذلك أن الشیء يراد، ثم يقال، ثم يُكْتَبُ ، فالإرادة مبدأ، والکِتَابَةُ منتهى. ثم يعبّر عن المراد الذي هو المبدأ إذا أريد توكيده بالکتابة التي هي المنتهى، قال : كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي [ المجادلة/ 21] ، وقال تعالی: قُلْ لَنْ يُصِيبَنا إِلَّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا [ التوبة/ 51] ، لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] نیز کسی چیز کے ثابت کردینے اندازہ کرنے ، فرض یا واجب کردینے اور عزم کرنے کو کتابہ سے تعبیر کرلیتے ہیں اس لئے کہ پہلے پہل تو کسی چیز کے متعلق دل میں خیال پیدا ہوتا ہے پھر زبان سے ادا کی جاتی ہے اور آخر میں لکھ جاتی ہے لہذا ارادہ کی حیثیت مبداء اور کتابت کی حیثیت منتھیٰ کی ہے پھر جس چیز کا ابھی ارادہ کیا گیا ہو تاکید کے طورپر اسے کتب س تعبیر کرلیتے ہیں جو کہ دراصل ارادہ کا منتہیٰ ہے ۔۔۔ چناچہ فرمایا : كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي[ المجادلة/ 21] خدا کا حکم ناطق ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے ۔ قُلْ لَنْ يُصِيبَنا إِلَّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا [ التوبة/ 51] کہہ دو کہ ہم کو کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی بجز اس کے کہ جو خدا نے ہمارے لئے مقدر کردی ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] تو جن کی تقدیر میں مار جانا لکھا تھا ۔ وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرو ر نکل آتے ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( نس ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے عين ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا[ القمر/ 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود/ 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] . ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة، واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان/ 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] . ( ع ی ن ) العین اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔ أنف أصل الأنف : الجارحة، ثم يسمّى به طرف الشیء وأشرفه، فيقال : أنف الجبل وأنف اللحية ونسب الحمية والغضب والعزّة والذلة إلى الأنف حتی قال الشاعر : إذا غضبت تلک الأنوف لم أرضها ... ولم أطلب العتبی ولکن أزيدهاوقیل : شمخ فلان بأنفه : للمتکبر، وترب أنفه للذلیل، وأَنِفَ فلان من کذا بمعنی استنکف، وأَنَفْتُهُ : أصبت أنفه . وحتی قيل الأَنَفَة : الحمية، واستأنفت الشیء : أخذت أنفه، أي : مبدأه، ومنه قوله عزّ وجل : ماذا قال آنِفاً [ محمد/ 16] أي : مبتدأ . ا ن ف) الانف اصل میں انف بمعنی ناک ہے ۔ مجازا کسی چیز کے سرے اور اس کے بلند ترحصہ کو بھی انف کہا جا تا ہے چناچہ پہاڑ کی چوٹی کو انف الجبل اور کنارہ ریش کو انف اللحیۃ کہدیتے ہیں ۔ اور حمیت وغضب اور عزت وذلت کو انف کی طرف منسوب کیا جاتا ہے شاعر نے کہا ہی ع (3) اذا عضبت تلک الانوف لم ارضھا ولم اطلب التعبی ولکن ازید ھا اور جب وہ ناراض ہوں گے تو میں انہیں راضی نہیں کروں گا ۔ بلکہ ان کی ناراضگی کو اور بڑھاؤں گا ۔ اور متکبر کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ شمخ فلان بانفہ فلاں نے ناک چڑھائی یعنی تکبر کیا ۔ ترب انفہ وہ ذلیل ہو ۔ انف فلان من کذا کسی بات کو باعث عار سمجھناانفتہ اس کی ناک پر مارا ۔ اور انفہ بمعنی حمیت بھی آتا ہے ۔ اسنتانفت الشئ کے معنی کسی شے کے سرے اور مبدء کو پکڑنے ( اور اس کا آغاز کرنے کے ہیں اور اسی ارشاد ہے ۔ { مَاذَا قَالَ آنِفًا } ( سورة محمد 16) انہوں نے ابھی ( شروع میں ) کہا تھا ؟ أذن (کان) الأذن : الجارحة، وشبّه به من حيث الحلقة أذن القدر وغیرها، ويستعار لمن کثر استماعه وقوله لما يسمع، قال تعالی: وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ قُلْ : أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ [ التوبة/ 61] أي : استماعه لما يعود بخیرٍ لكم، وقوله تعالی: وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام/ 25] إشارة إلى جهلهم لا إلى عدم سمعهم . ( اذ ن) الاذن کے معنی کان کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر ہنڈیا کی کو روں کو اذن القدر کہا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ہر اس شخص پر اذن کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جو ہر ایک کی بات سن کر اسے مان لیتا ہو ۔ چناچہ فرمایا :۔ { وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ } ( سورة التوبة 61) اور کہتے ہیں یہ شخص زا کان ہے ان سے ) کہدو کہ وہ کان ہے تو تمہاری بھلائی کے لئے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا } ( سورة الأَنعام 25) اور انکے کانوں میں گرانی پیدا کردی ہے ۔ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بہرے ہوگئے ہیں بلکہ اس سے انکی جہالت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔ سنن السِّنُّ معروف، وجمعه أَسْنَانٌ. قال : وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ [ المائدة/ 45] السن دانت اس کی جمع اسنان آتی ہے قرآن میں ہے : وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ [ المائدة/ 45] دانت کے بدلے دانت سان البعیر لفاتۃ نر اونٹ نے دانت سے کاٹ کر اونٹنی کو نیچے بٹھالیا ۔ السنون دانتوں کا منجن ) ایک دوا جس سے دانتوں کا علاج کیا جاتا ہے ۔ جرح الجرح : أثر دام في الجلد، يقال : جَرَحَه جَرْحاً ، فهو جَرِيح ومجروح . قال تعالی: وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة/ 45] ، وسمي القدح في الشاهد جرحا تشبيها به، وتسمی الصائدة من الکلاب والفهود والطیور جَارِحَة، وجمعها جَوَارِح، إمّا لأنها تجرح، وإمّا لأنها تکسب . قال عزّ وجلّ : وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ [ المائدة/ 4] ، وسمیت الأعضاء الکاسبة جوارح تشبيها بها لأحد هذين، والاجتراح : اکتساب الإثم، وأصله من الجِرَاحة، كما أنّ الاقتراف من : قرف القرحة قال تعالی: أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ [ الجاثية/ 21] . ( ج ر ح ) جرحہ ( جرجا زخمی کرنا صفت مفعول جریج ومجروح ( جرح ( آم ) ج جروح قرآن میں ہے : ۔ الْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة/ 45] اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے اور زخم کے ساتھ تشبیہ دے کر گواہ پر بحث کرنے کو بھی جرح کہا جاتا ہے اور کتے چیتے اور پرند سے شکاری جانور کو جارحۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع جوارح ہے اور شکاری جانوروں کو جوارح یا تو اس لئے کہا جاتا کہ وہ شکار کو زخمی کرتے ہیں اور یا اس لئے کہ وہ کما کر لاتے ہیں ان ہر دو وجوہ میں سے کسی ایک کی بنا پر اعضا کا سبہ یعنی ہاتھ پاؤں کو جوارح کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ [ المائدة/ 4] اور وہ شکار بھی حلال ہے ) جو تمہارے شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہے : ۔ الارجتراح ( جرائم کا ارتکاب کرنا ) اصل میں جراحۃ سے ہے جیسا کہ اقتراف کا لفظ قرن القرحۃ سے مشتق ہے جس کے معنی زخم کو چھیلنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ [ الجاثية/ 21] جو لوگ برے کام کرتے ہیں کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں ۔ قِصاصٌ والقِصاصُ : تتبّع الدّم بالقود . قال تعالی: وَلَكُمْ فِي الْقِصاصِ حَياةٌ [ البقرة/ 179] وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة/ 45] ويقال : قَصَّ فلان فلانا، وضربه ضربا فَأَقَصَّهُ ، أي : أدناه من الموت، والْقَصُّ : الجصّ ، و «نهى رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلم عن تَقْصِيصِ القبور» «1» . القصاص کے معنی خون کا بدلہ دینے کے ہیں چناچہ فرمایا : وَلَكُمْ فِي الْقِصاصِ حَياةٌ [ البقرة/ 179] حکم قصاص میں تمہاری زندگی ہے ۔ وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة/ 45] سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے ۔ محاورہ ہے قص فلان فلانا وضربہ ضربا فاقصہ فلاں کو ( مار مار کر ) مرنے کے قریب کردیا ۔ القص کے معنی چونہ کے ہیں ۔ حدیث میں ہے (181) نھی رسول اللہ ﷺ عن تقصیص القبور کہ رسول اللہ نے قبروں کو گچ کرنے سے منع فرمایا ۔ صَدَّقَ ( معاف کرنا) ويقال لما تجافی عنه الإنسان من حقّه : تَصَدَّقَ به، نحو قوله : وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ [ المائدة/ 45] ، أي : من تجافی عنه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلى مَيْسَرَةٍ ، وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ [ البقرة/ 280] ، فإنه أجری ما يسامح به المعسر مجری الصّدقة «3» . وعلی هذا ما ورد عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «ما تأكله العافية فهو صدقة» «1» ، وعلی هذا قوله تعالی: وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلى أَهْلِهِ إِلَّا أَنْ يَصَّدَّقُوا [ النساء/ 92] ، فسمّى إعفاء ه صَدَقَةً ، اور تصدق بہ کے معنی اپنے حق سے دست بردار ہوجانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ [ المائدة/ 45] اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے لیکن جو شخص بدلہ معاف کردے وہ اس کیلئے کفار ہ ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلى مَيْسَرَةٍ ، وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ [ البقرة/ 280] اور اگر قرض لینے والا تنگدست ہو تو اسے کشائش کے حاصل ہونے تک مہلت دو اور اگر زر قرض بخش ہی دو تو تمہارے لئے زیادہ اچھا ہے ۔ میں معسر یعنی تنگ دست کو معاف کردینے کو صدقۃ کے قائم مقام قرار دیا ہے اور اسی معنی میں آنحضرت سے مروی ہے ( 2 ) ( ماتاکلہ العافیۃ فھوصدقۃ ) کہ جو کھیتی جانورکھاجائیں وہ بھی صدقہ ہے ۔ اسی بنا پر آیت کریمہ : ۔ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلى أَهْلِهِ إِلَّا أَنْ يَصَّدَّقُوا[ النساء/ 92] اور دوسرے مقتول کے وارثوں کو خون بہادے ہاں اگر وہ معاف کردیں ۔ میں معاف کردینے کو صدقہ قرار دیا ہے ۔ كَفَّارَة ( گناهوں کا چهپانا) والْكَفَّارَةُ : ما يغطّي الإثم، ومنه : كَفَّارَةُ الیمین نحو قوله : ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة/ 89] وکذلك كفّارة غيره من الآثام ککفارة القتل والظّهار . قال : فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة/ 89] والتَّكْفِيرُ : ستره وتغطیته حتی يصير بمنزلة ما لم يعمل، ويصحّ أن يكون أصله إزالة الکفر والکفران، نحو : التّمریض في كونه إزالة للمرض، وتقذية العین في إزالة القذی عنه، قال : وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة/ 65] ، نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء/ 31] وإلى هذا المعنی أشار بقوله : إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود/ 114] وقیل : صغار الحسنات لا تكفّر کبار السّيّئات، وقال : لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران/ 195] ، لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر/ 35] ويقال : كَفَرَتِ الشمس النّجومَ : سترتها، ويقال الْكَافِرُ للسّحاب الذي يغطّي الشمس واللیل، قال الشاعر : ألقت ذکاء يمينها في کافر «1» وتَكَفَّرَ في السّلاح . أي : تغطّى فيه، والْكَافُورُ : أکمام الثمرة . أي : التي تكفُرُ الثّمرةَ ، قال الشاعر : كالکرم إذ نادی من الکافوروالْكَافُورُ الذي هو من الطّيب . قال تعالی: كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] . الکفا رۃ جو چیز گناہ دور کردے اور اسے ڈھانپ لے اسے کفارہ کہا جاتا ہے اسی سے کفارۃ الیمین ہے چناچہ اس کا ذکر کرتی ہوئے فرمایا : ۔ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة/ 89] یہ تمہاری قسموں کا کفارۃ ہے جب تم قسمیں کھالو ۔ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة/ 89] تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا کھلانا ہے ۔ اسی طرح دوسرے گناہ جیسے قتل اظہار وغیرہ کے تادان پر بھی کفارہ کا لفظ استعمال ہوا ہے : التکفیرۃ اس کے معنی بھی گناہ کو چھپانے اور اسے اس طرح مٹا دینے کے ہیں جسے اس کا ارتکاب ہی نہیں کیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ اصل میں ازالۃ کفر یا کفران سے ہو جیسے تم یض اصل میں ازالہ مرض کے آتے ہیں اور تقد یۃ کے معنی ازالہ قذی تنکا دور کرنے کے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة/ 65] اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ محو کردیتے ۔ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء/ 31] تو ہم تمہارے ( چھوٹے چھوٹے ) گناہ معاف کر دینگے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود/ 114] کچھ شک نہیں نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں بڑے گناہوں کا کفارہ نہیں بن سکتیں ۔ لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران/ 195] میں ان کے گناہ دور کردوں گا ۔ لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر/ 35] تاکہ خدا ان سے برایئوں کو جو انہوں نے کیں دور کر دے ۔ محاورہ ہے : ۔ کفرت الشمس النجوم سورج نے ستاروں کو چھپادیا اور اس بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے جو سورج کو چھپا لیتا ہے : ۔ تکفر فی السلاح اس نے ہتھیار پہن لئے ۔ الکافو ر اصل میں پھلوں کے خلاف کو کہتے ہیں جو ان کو اپنے اندر چھپائے رکھتا ہے شاعر نے کہا ہے ( 375 ) کا لکریم اذ نادی من لکافور جیسے انگور شگوفے کے غلاف سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن کافور ایک مشہور خوشبو کلمہ بھی نام ہے چناچہ فرمایا : ۔ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] جس میں کافور کی آمیزش ہوگی ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
Top