Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 70
قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا١ۚ فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَجِئْتَنَا : کیا تو ہمارے پاس آیا لِنَعْبُدَ : کہ ہم عبادت کریں اللّٰهَ : اللہ وَحْدَهٗ : واحد (اکیلے) وَنَذَرَ : اور ہم چھوڑ دیں مَا : جو۔ جس كَانَ يَعْبُدُ : پوجتے تھے اٰبَآؤُنَا : ہمارے باپ دادا فَاْتِنَا : تو لے آ ہم پر بِمَا تَعِدُنَآ : جس کا ہم سے وعدہ کرتا ہے اِنْ : اگر كُنْتَ : تو ہے مِنَ : سے الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ
وہ بولے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے اللہ ہی کی عبادت کریں اور انہیں چھوڑبیٹھیں جن کی عبادت ہمارے باپ (دادا) کرتے آئے ہیں ؟ سو اگر تم سچے ہو تو جس (عذاب) کی دھمکی دیتے ہو اسے لے آؤ ہمارے پاس،93 ۔
93 ۔ (ابھی اور فی الفور) دور انبیاء میں مشرکوں کو یہ مغالطہ بھی ہمیشہ ہی رہا ہے جب پیغمبروں کا فی الفور) دور انبیاء میں مشرکوں کو یہ مغالطہ بھی ہمیشہ ہی رہا ہے جب پیغمبروں کا وعظ سنتے اور دلائل و جواب میں کچھ بن نہ پڑتا تو یہی کہنے لگتے کہ ” لے آؤنا اپنا عذاب دیکھیں تو وہ کیسا ہے “ ؟۔۔ گویا پیغمبروں کا وعدہ فی الفور عذاب کا تھا۔ اور گویا عذاب الہی کا لانا پیغمبروں کے اختیار کی چیز تھی ! (آیت) ” اجئتنا۔۔۔ ابآؤنا “۔ اسے وہ بڑے استعجاب کے لہجہ میں اور ایک انتہائی عجیب و غریب بات سمجھ کر کہتے۔ مشرکوں کو اصلی چڑ ہمیشہ توحید سے رہی ہے۔ انکار انہیں نفس وجود باری سے نہیں۔ وہ ملحد اور دہری نہیں ہوتے صرف مشرک ہوتے ہیں۔ یعنی نام خدا کا جتنی بار چاہیے لیجئے مگر جب بھی لیجئے تنہا نہ لیجئے۔ دوسروں کے ساتھ ملا جلا کرلیجئے۔
Top