Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 70
قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا١ۚ فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَجِئْتَنَا : کیا تو ہمارے پاس آیا لِنَعْبُدَ : کہ ہم عبادت کریں اللّٰهَ : اللہ وَحْدَهٗ : واحد (اکیلے) وَنَذَرَ : اور ہم چھوڑ دیں مَا : جو۔ جس كَانَ يَعْبُدُ : پوجتے تھے اٰبَآؤُنَا : ہمارے باپ دادا فَاْتِنَا : تو لے آ ہم پر بِمَا تَعِدُنَآ : جس کا ہم سے وعدہ کرتا ہے اِنْ : اگر كُنْتَ : تو ہے مِنَ : سے الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ
کہا ان لوگوں (ہود (علیہ السلام) کی قوم) نے ، کیا تو آیا ہے ہمارے پاس اس مقصد کے لئے کہ ہم عبادت کریں اکیلے اللہ کی اور چھوڑ دیں ہم اس چیز کو جس کی عبادت کرتے تھے ہمارے آبائو اجداد ، پس ہمارے پاس جس چیز کا تم وعدہ کرتے ہو ، اگر تم سچے ہو
ربط آیات گزشتہ درس میں حضرت ہود (علیہ السلام) کا تذکرہ اللہ نے ان کی بعثت کا ذکر کیا انہوں نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی اور غیر اللہ کی عبادت سے منع فرمایا مگر قوم کے سربرآوردہ لوگوں نے آپ کی دعوت کو قبول نہ کیا اور آپ پر جھوٹ اور بےوقوفی کا الزام لگایا حضرت ہود (علیہ السلام) نے نہایت نرمی کے ساتھ جواب دیا کہ اے میری قوم کے لوگو ! مجھ میں بےعقلی کی کوئی بات نہیں ہے میں تو رب العلمین کی طرف سے تمہارا رسول بناکر بھیجا گیا ہوں میں اپنے رب کے پیغام تک پہنچانے پر مامور ہوں میں تمہارا خیر خواہ اور امانت دار ہوں کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نصیحت ایک ایے شخص پر نازل ہوئی ہے جو تمہارے خاندان ، قوم اور نسل سے تعلق رکھتا ہے تاکہ وہ تمہیں خدا تعالیٰ کے عذاب سے ڈرا دے ؟ فرمایا خدا کے انعامات کو یاد کرو کہ قوم نوح کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہیں خلیفہ بنایا ، زمین پر اقتدار بخشا تمہیں بڑے بڑے جسم دیے اور طاقتور بنایا لہٰذا تمہیں اللہ تعالیٰ کے انعامات کو یاد کرکے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ آبائو اجداد کے معبود حضرت ہود (علیہ السلام) کی تقریر کا جواب آپ کے قوم کے کفار سرداروں نے اس طرح دیا قالو اجتنا لنعبد اللہ وحدہ کہنے لگے کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کریں ؟ ونذرما کان یعبد ابنائونا اور ان چیزوں کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے آبائواجداد پرستش کرتے تھے جن معبودوں کی ہم نذر و نیاز دیتے ہیں اور جو ہماری حاجت روائی اور مشکل کشائی کرتے ہیں ہم انہیں یک لخت کیسے چھوڑ سکتے ہیں اے ہود (علیہ السلام) ہم آپ کی یہ بات ماننے کے لیے ہرگز تیار نہیں تم تو بےوقوفی کی باتیں کرتے وہ بھلا ان معبودوں کے بغیر ہمارے مقاصد کیسے پورے ہوسکتے ہیں ؟ بالکل یہی بات مشرکین مکہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعوت کے جواب میں کہی تھی انہوں نے دو چیزوں پر استعجاب کا اظہار کیا تھا ایک یہ کہ جب ہم مرکر مٹی میں مل جائیں گے اور ہماری ہڈیاں ریزہ ریزہ ہوجائیں گی تو عجیب بات ہے کہ ہم جی اٹھیں گے اور دوسری بات یہ کی تھی اجعل الالھۃ الھاً واحدا ان ھذا لشیٔ عجاب ہم تمام معبودوں کو چھوڑ کر صرف ایک خدا کی عبادت کریں یہ تو عجیب بات ہے ہمارے آبائواجداد میں سے تو کبھی کسی نے ایسی بات نہیں کی ہم صدیوں سے لات ، منات اور عزیٰ وغیرہ کی پوجا کر رہے ہیں مگر کسی نے نہیں روکا تو ہود (علیہ السلام) کی قوم نے بھی یہی کہا کہ کیا ہم اپنے آبائواجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور صرف ایک معبود کی عبادت کریں یہ ناممکن ہے فاتنا بما تعدناً ان کنت من الصدقین ہود (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو پھر لے آ جس چیز کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے یعنی ہم پر وہ عذاب نازل کردو جس سے ہمیں ڈراتے ہو۔ اس قسم کی بات بعض دوسرے انبیاء کے ساتھ بھی پیش آئی ہے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے کہا فاسقط علینا کسفاً من السماء (الشعرائ) اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرا دے حضرت لوط (علیہ السلام) سے بھی یہی مطالبہ کیا گیا قالو ائتنا بعذاب اللہ ان کنت من الصدقین اگر تم سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آئو مشرکین مکہ بھی حضور ﷺ کو سچا نہیں مانتے تھے اور کہتے تھے اس کا لایا ہوا کلام اگر برحق ہے فامطر علینا حجارۃ من السماء اوائتنا بعذاب الیم (انفا) تو اے اللہ ہم پر آسمان سے پتھر برسایا ہمیں دردناک عذاب میں مبتلا کردے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کا جواب جب قوم نے حضرت ہود (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا قال قد وقع علیکم من ربکم رجس وغضب تحقیق واقع ہوچکا ہے کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے عذاب اور غضب یعنی تمہاری سرکشی ، گستاخی اور بےحیائی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ تم پر خدا کا غضب نازل ہونے والا ہے لفظ رجس دو مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اس کا ایک معنی گندگی ہے جیسے فاجتنبو الرجس من الاوثان (الحج) بتوں کی گندگی سے بچو یہ معنوی نجاست ہوتی ہے کہ انسان کے دل و دماغ میں راسخ ہوجاتی ہے اور جس نے انساں کی روح پلید ہوجاتی ہے رجس کا دوسرا معنی عذاب ہے جیسا کہ اس آیت میں استعمال ہوا ہے قرآن میں دیگر مقامات پر بھی رجس یا رجز عذاب کے معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسے بنی اسرائیل کے متعلق فرمایا فانزلنا علی الذین ظلمو رجزاً من السماء (البقرہ) ہم نے ظالموں پر آسمان سے عذاب نازل فرمایا اسی طرح غضب کا لفظ بھی قرآن پاک میں متعدد بار غصہ اور ناراضگی کے معنوں میں آیا ہے جیسے فرمایا فباء وبغضب علی غضب (البقرۃ) وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی پر ناراضگی لے کر لوٹے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے مزید فرمایا اتجادلوننی فی اسماء کیا تم میرے ساتھ ان ناموں کے متعلق جھگڑتے ہو سمیتموھا انتم وآبائو کم جو تم نے اور تمہارے آبائواجداد نے رکھ لیے ہیں اور ہر ایک کو کسی خاص صفت سے متصف کردیا ہے کہ فلاں بت روزی دینے والا ہے فلاں اولاد دینے والا ہے فلاں بارش برسانے والا اور فلاں مقدمہ میں رہائی دلانے والا ہے بتوں کے مختلف نام رکھے ہیں اور پھر ان کی عبادت کرتے ہو ان سے مرادیں مانگتے اور بگڑی بنواتے ہو حضرت ہود (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ نام ہی نام ہیں مانزل اللہ بھامن سلطن اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں کوئی سند نہیں اتاری کہ جن امور کو ان کے ساتھ منسوب کرتے ہو وہ کام واقعتاً کر بھی سکتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اولاد ، شفا ، روزی ، عروج وزوال ، مافوق الاسباب استعانت یہ سب اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں ہیں ان میں سے کوئی بھی صفت ان معبودان باطلہ میں نہیں پائی جاتی یہ بالکل بےاختیار ہیں بلکہ بعض ان میں سے بےجان ہیں لہٰذا یہ تمہارے کچھ کام نہیں آسکتے تمہیں کوئی نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے حتیٰ کہ ملائکہ بھی خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کرتے یہ تو تم نے محض نام رکھ دیے ہیں جن میں حقیقت کچھ بھی نہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں کوئی سند نہیں اتاری۔ یہی بات حضور ﷺ کی تقریر میں بھی پائی جاتی ہے ان ھی الا اسماء سمتموھا انتم وابائو کم مانزل اللہ بھا من سلطن (النجم) اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے لات ، عزیٰ اور منات کا نام لے کر فرمایا ہے یہ مشرکین کے خود رکھے ہوئے نام تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق کوئی سند نہیں اتاری اللہ تعالیٰ نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ فلاح بت کی پوجا کرو اور فلاں سے مدد مانگو ، یا فلاں کی تعظیم کرو تو تمہارا مقصد پورا ہوجائے گا فرمایا اس کو تو عقل پہچانتی ہے کہ مٹی اور پتھر کے بت کسی نفع نقصان کے مالک نہیں اور جن بزرگوں کے نام پر یہ بت بنائے گئے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی عاجز مخلوق تھے عابد اور معبود مخلوق وہنے کے اعتبار سے دونوں ضعیف ہیں ضعف الطالب والمطلوب (الحج) میں یہی بات سمجھائی گئی ہے کہ حاجت مند اور حاجت روا دونوں کمزور ہیں وہ نقع نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ فیصلے کا انتظار فرمایا شرک کے ارتکاب اور پھر اللہ کے نبی کے ساتھ جھگڑا کرنے کی وجہ سے تمہاری بدبختی انتہا کو پہنچ چکی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری طرف سے شرک سے باز آجانے کی اب کوئی امی دباقی نہیں رہی لہٰذا فانتظرو انی معکم من المنتظرین تم بھی فیصلے کا انتظار کرو اور تمہارے ساتھ میں بھی اسی انتظار میں ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے حق میں کیا فیصلہ کرتا ہے میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ حضرت ہود (علیہ السلام) 460 یا 480 سال تک اس دنیا میں زندہ رہے قوم کو خدا کا پیغام سناتے رہے اتنا لمبا عرصہ تبلیغ کا حق کا ادا کرنے کے باوجود جب قوم سرکشی سے باز نہ آئی تو پھر ان کے لیے فیصلے کا وقت آن پہنچا خدا تعالیٰ نے اس قوم پر تین سال تک قحط مسلط کردیا وادی داہنا میں عمان سے حضر موت تک گرم ترین علاقے میں بارش کا قطرہ نہ برسا جس کی وجہ سے قوم ہود نے سخت تکلیف اٹھائی مگر پھر بھی اپنے نبی کی بات ماننے پر تیار نہ ہوئے اس کے بعد ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا آسمان سے آگ برسی اور آٹھ دن اور سات رات تک مسلسل آندھی چلی جس سے پوری قوم تہس نہس ہوگئی۔ وفد عاد کا سال کہتے ہیں کہ جب قوم عاد سخت قحط میں مبتلا ہوگئی تو انہوں نے اپنے ایک سردار قیل کی سرکردگی میں ایک وفد مکہ مکرمہ کی طرف روانہ کیا جو وہاں جاکر اللہ تعالیٰ سے بارش کے لیے دعا کرے اس وقت بیت اللہ شریف کی عمارت تو طوفان کی وجہ سے مٹ چکی تھی تاہم لوگ اس جگہ کو مقدس جانتے تھے اور اس مقام پر دعائیں کرتے تھے قوم عاد نے بھی ایک وفد اس مقام کے لیے روانہ کیا اس وفد کا حال ترمذی شریف اور مسند احمد میں مذکور ہے حارث ابن زید ؓ بکری عربوں کے قبیلہ بکر کا ایک شخص صحابی رسول ہے یہ شخص قوم عاد کے علاقے کا رہنے والا تھا جب یہ مدینہ آیا تو کسی شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ حضور ! عاد کا ایک وفد آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے حضرت حارث خود بیان کرتے ہیں ذکرت وافد عاد کہ میرا وفد عاد کے طور پر ذکر کیا گیا ہے یہ ن کر میں نے کہا اعوذ باللہ ان آکون وافد عاد پناہ بخدا کہ میں وفد عاد جیسا بنوں اس پر حضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حارث ؓ سے دریافت کیا کہ تم عاد کے وفد کے متعلق کیا جانتے ہو وہ کہنے لگا کہ میں یہ جانتا ہوں کہ سردار قیل کی قیادت میں ایک وفد مکہ مکرمہ گیا تھا جب قحط پڑا تو قوم نے اس وفد کو روانہ کیا تاکہ وہ وہاں جاکر بارش کے لیے دعا کرے یہ وفد مکہ کے قریب پہنچا تو وہاں پر معاد یہ ابن بکر سردار کے پاس اترا اس نے مہینہ بھر وفد کی خوب خدمت تواضع کی شراب پلائی اور مہمانوں کے دل بہلا دے کے لیے جرادتان تغنیان ناچنے گانے والی دو لونڈیاں بھی ان کے سپرد کیں۔ یہ وفد اپنے عیش و آرام میں لگا رہا حتیٰ کہ ان کا میزبان ان سے تنگ آگیا وہ چاہتا تھا کہ اب یہ لوگ چلے جائیں مگر کھل کر انہیں کہہ بھی نہیں سکتا تھا چناچہ اس نے گانے والی لونڈیوں سے کہا کہ تم ایسے اشعار گائو کہ جن کو سن کر یہ لوگ یہاں سے چلے جائیں اور ہماری توہین بھی نہ ہو تو لونڈیوں نے مہمانوں کے سامنے یہ اشعار گائے۔ الا یا قیل ویحک قم فھینم اے سردار افسوس ہے تمہاری حالت پر اٹھو دعا کرو لعل اللہ یسقینا غماماً شاید کہ خدا ہم کو بادلوں سے سیراب کردے فیتحر ارض عاد انء ادا قد اموالا یبینون الکلاما شاید خدا عاد کی سرزمین کو سیراب کردے کیونکہ قوم عاد کے لوگ اتنے عاجز ہوگئے کہ بات بھی نہیں کرسکتے۔ من العطش الشدید فلیس نرجو بہ الشیخ الکبیر والا الغلاما پیاش یدید کی وجہ سے ہم تو مایوس ہوگئے ہیں بوڑھے بھی اور بچے بھی (یہ سب پیاس کا شکار ہو کر نیست و نابود ہی نہ ہوجائیں) وقد کانت نسائو ھم بخیر فقد امست نسائوھم عیاما ان کی عورتیں بھی خوشحال تھیں لیکن اب بالکل بدحال ہوچکی ہیں اور بانجھ ہوچکی ہیں تکلیف اور پریشانی کی وجہ سے۔ وان الوحش یاتیھم جھارا ولابخشی لعادی سھاما اگر ان کے پاس جانور بھی آجائیں تو ان میں اتنی طاقت نہیں کہ عاد کا کوئی فرد ان پر تیر چلا سکے جانور سب بےخوف ہوچکے ہیں وہ کمزور ہو کر اس درجے تک پہنچ چکے ہیں۔ وانتم ھاھنا فیما اشتھیتم تھارکم ولیلکم التماما اے وفد کے لوگو ! تم یہیں ٹھہرے ہوئے ہو قوم کا پیچھے یہ حال ہے اور تم یہاں آرام کر رہے ہو فقبح وفد کم من وفد قوم ولا الاقوا لاتحیۃ والسلام ا تمہارا وفد تو بہت ہی برا ہے وہ تو سلام کرنے کے قابل بھی نہیں ہے یا اس قابل بھی نہیں ہے کہ اس کے لیے دعا کی جائے۔ لونڈیوں کے اشعار کا وفد عاد پر یہ اثر ہوا کہ وہ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مکہ کی پہاڑیوں جبال مہرۃ میں آکر اس طرح دعا کی۔ الھم انی لم اتک لمریض فاداویہ ولا لاسیرافاربہ فاسق عبدک ماکنت مستقیم (ترمذی ص 471) اے خدا ! میں کسی مریض کی شفایابی کے لیے نہیں آیا اور نہ کسی قیدی کو فدیہ میں چھڑانے کے لیے حاض ہوا ہوں میں تو اس لیے آیا ہوں کہ اپنے بندوں کو بارش سے سیراب کردے جیسے پہلے کیا کرتا تھا۔ سردار وفد اگرچہ مشرک تھا اور معبودان باطلہ کو مانتا تھا مگر اس وقت اس نے خدا وند کریم سے بارش کی دعا کی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ہمارے میزبان معاویہ ابن بکر کو سیراب کرے کیونکہ اس نے ہماری بڑی خدمت کی ہے۔ قوم عاد کی دعا ادھر وفد مکہ میں بارش کی دعا کررہا تھا تو ادھر قوم عاد اپنے علاقے میں بارش کے لیے معبودان باطلہ کو پکار رہی تھی مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ حضرت ہود (علیہ السلام) کو ماننے والے اہل ایمان مرصد ابن سعد نے قوم سے کہا کہ جن معبودوں کو تم پکار رہے ہو ان کے اختیار میں کچھ نہیں ہے لہٰذا ان کی منت سماجت کرنے سے قحط دور نہیں ہوگا اس صاحب ایمان آدمی نے اپنی بات ان اشعار میں کی۔ عصمت عاد رسولھم فاموا عطاشاً ماتبلھم السماء قوم عاد نے اپنے رسول کی نافرمانی کو تو پیاسے ہوگئے ہیں کہ آسمان سے ایک قطرہ پانی بھی نہیں برستا (سخت تکلیف میں ہیں) لھم صنم یقال لہ صمود یقابلہ صداء والھباء ان کا ایک بت صمود ہے جس کی پرستش کرتے ہیں اور صداء اور ھبا ہے (ان سب کو پکارتے ہیں ان پر نذرانے چڑھاتے ہیں مگر ان کو بارش برسانے کا کہاں اختیار ہے) فبصرنا الرسول سبیل رشید فابصرنا الھدی وخلا العماء ہمیں تو اللہ کے رسول نے ٹھیک راستہ سمجھا دیا ہے (یعنی اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے مدد چاہو) ہم نے تو دل کی بصیرت سے ہدایت کو پالیا ہے اور ہم سے اندھا پن دور ہوچکا ہے۔ وان الہ ھود ھو الٰہی علی اللہ التوکل والرجاء بیشک ہود (علیہ السلام) کا معبود ہی ہمارا معبود ہے ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے توکل اور امید کرتے ہیں (بارش وہی برسائے گا اور تکلیف وہی دور کرے گا) بہرحال ادھر قوم نے دعا کی اور ادھر وفد نے بارش کے لیے التجا کی۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ اس وقت تین قسم کے بادل نمودار ہوئے یعنی سفید ، سرخ اور سیاہ ان بادلوں سے آواز آئی اختر ان میں سے جو تمہیں پسند ہے اختیار کرلو یہ آواز سن کر وفد کے سردار نے سیاہ بادل کو پسند کیا کیونکہ عام طور پر کالی گھٹائیں زیادہ بارش لاتی ہیں پھر کالی گھٹائیں سے آواز آئی ؎ خذ رمداً رماداً لاتبقی احداً من عادٍ یہ سیاہی مائل جلا ہوا بادل لے لو ، یہ قوم عاد میں سے کسی کو نہیں چھوڑے گا قوم عاد پر عذاب وفد اور قوم کے لوگ خوش تھے کہ بادل جھوم کر آئے ہیں ان کی دعا رنگ لائی ہے اور اب جل تھل ہوجائے گا اور قحط سالی ختم ہوجائے گی ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انگوٹھی کے دائرے کے برابر ہوا چھوڑی جو سخرھا علیھم سبع لیال وثمنیۃ ایام حسوما (المائدہ) (لگاتار سات راتیں اور آٹھ دن چلتی رہی سورة احقاف میں ہے کہ جب کالے بادل عاد کی وادیوں پر چھا گئے تو قوم کے لوگ کہنے لگے ھذا عارض ممطرنا کہ آسمان کے کنارے پر بادل چھا گئے ہیں ابھی خوب بارش ہوگی انہوں نے اچھلنا کودنا شروع کردیا بادلوں کی آمد پر بڑی خوشی منائی کہ ان کی دعا قبول ہوگئی ہے جب بادل قریب آئے تو ان میں سے ٹھنڈی ہوا آئی لوگ دوڑ کر بادلوں کے نیچے گئے وہاں انہیں بڑا سکون حاصل ہورہا تھا جب بہت سے لوگ بادلوں کے نیچے جمع ہوگئے تو ان میں آگ برسنا شروع ہوگئی جس سے لوگ جل بھن گئے امام محمد باقر (رح) کی روایت میں آتا ہے اور صاحب روح المعانی نے بھی نقل کیا ہے کہ اللہ نے تیز ہوا چھوڑی جس نے عادیوں کو زمین سے اٹھا اٹھا کر پٹخ دیا یہ ایک دور سے سے ٹکرا ٹکڑا کر ختم ہوگئے اور پھر ان کی لاشیں زمین پر اس طرح پڑی تھیں ” کانھم اعجان نخل خاویۃ (الحاقۃ) گویا کہ اکھاڑی ہوئی کھجوروں کے بڑے بڑے تنے ہوں بہت بڑے بڑے قد آور لوگ تھے ان کے سر اتنے اتنے بڑے تھے جتنا کوئی چھوٹا سا گنبد ، اللہ نے ان کے سروں کو آپس میں ٹکرا ٹکرا کر نیست و نابود کردیا۔ اہل ایمان کا بچائو ادھر حضرت ہود (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کو حکم ہوا کہ اس مغضوب علیہ قوم سے الگ ہوجائیں کہتے ہیں کہ جانوروں کا کوئی باڑ تھا اللہ کا نبی اور اس کے ساتھی جو چار یا چھ ہزار کی تعداد میں تھے اس باڑے میں چلے گئے خدا کی حکمت کہ اس باڑے میں تیز اندھی اثر نہیں کرتی تھی لہٰذا اہل ایمان کا گروہ آٹھ روز تک وہیں رکا رہا اور ان کا بال بھی بیکا نہ ہوا اللہ نے فرمایا فانجینہ والذین معہ برحمۃ منا ہم نے ہود (علیہ السلام) اور اس کے حواریوں کو اپنی رحمت سے بچالیا وقطعنا دابرالذین کذبو بایتنا اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ہم نے ان کی جڑ کاٹ ڈالی انہیں نیست و نابود کردیا کیونکہ وما کانو مومنین وہ ایمان لانے والے نہیں تھے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کی وفات قوم کی تباہی کے بعد حضرت ہود (علیہ السلام) مکہ مکرمہ پہنچے اور کچھ عرصہ وہیں مقدس مقام پر عبادت کرتے رہے اور کچھ عرصہ وہیں مقدس مقام پر عبادت کرتے رہے اور پھر اپنے پیروکاروں کو لے کر حضر موت کے علاقے میں چلے گئے آپ کی وفات کے متعلق دو روایات ملتی ہیں ایک یہ کہ آپ مکہ میں ہی فوت ہوگئے اور وہیں حرم شریف حجر کے مقام پر دفن ہوئے جہاں پر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ، حضرت ہاجرہ ؓ اور بعض دیگر انبیاء کی قبور ہیں اور دوسری روایت یہ ہے کہ آپ حضر موت میں جاکر فوت ہوئے یہی روایت زیادہ قرین قیاس ہے وہیں یمن کے علاقے میں ریت کے ٹیلوں میں آپ کی قبر ہے یہ سب تاریخی روایات ہیں حضور ﷺ کی حدیث سے یہ بات ثابت نہیں ہے لہٰذا تاریخی واقعات غلط بھی ہوسکتے ہیں۔
Top