Tafseer-e-Mazhari - Hud : 82
فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ١ۙ۬ مَّنْضُوْدٍۙ
فَلَمَّا : پس جب جَآءَ : آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم جَعَلْنَا : ہم نے کردیا عَالِيَهَا : اس کا اوپر (بلند) سَافِلَهَا : اس کا نیچا (پست) وَاَمْطَرْنَا : اور ہم نے برسائے عَلَيْهَا : اس پر حِجَارَةً : پتھر مِّنْ سِجِّيْلٍ : کنکر (سنگریزہ) مَّنْضُوْدٍ : تہہ بہ تہہ
تو جب ہمارا حکم آیا ہم نے اس (بستی) کو (اُلٹ کر) نیچے اوپر کردیا اور ان پر پتھر کی تہہ بہ تہہ (یعنی پےدرپے) کنکریاں برسائیں
فلما جآء امرنا پر جب ہمارا حکم (یعنی عذاب کا حکم یا عذاب) آگیا۔ اوّل مفہوم کی تائید اگلی آیت سے ہو رہی ہے۔ جعلنا عالیھا سافلھا تو ہم نے ان بستیوں کو (اُلٹ) کر زیر و زبر کردیا (یعنی الٹ دیا ‘ اوپر کا تختہ نیچے اور نیچے کا اوپر کردیا) اگرچہ یہ فعل ملائکہ کا تھا ‘ ملائکہ نے اٹھا تھا لیکن چونکہ بحکم الٰہی تھا اس لئے الٹنے کی نسبت اللہ نے اپنی طرف کی۔ اس سے اپنے امر کی عظمت کا اظہار مقصود ہے۔ بغوی نے لکھا ہے : قوم لوط کی پانچ بستیاں تھیں ‘ حضرت جبرئیل نے بستیوں کے نیچے اپنا ایک بازو ڈال کر اتنا اٹھا لیا کہ اوپر والوں نے مرغ کی بانگ کی اور کتوں کے بھونکنے کی آواز سنی اور کسی کا کوئی برتن بھی نہ الٹا نہ کوئی سویا ہوا شخص بیدار ہوا ‘ پر بالکل الٹ دیا۔ سب زیر و زبر ہوگئے۔ ان پانچوں شہروں کی آبادی چار لاکھ یا چار کروڑ تھی۔ ان بستیوں کو مُؤْتَفِکَاتْ (الٹی ہوئی بستیاں) کہا جاتا ہے۔ ابن جریر ‘ ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر کی روایت سے بھی یہی نقل کیا ہے۔ وامطرنا علیھا حجارۃ من سجیل اور ہم نے ان پر کنکریلے پتھر برسائے۔ یعنی ان کو الٹنے کے بعد اوپر سے سنگساری کی یا یہ مطلب ہے کہ جو ادھر ادھر بچے کھچے مقامات میں راہ گیر رہ گئے تھے ‘ ان پر کنکروں کی بارش کی اور اس طرح ان کو ہلاک کردیا۔ حضرت ابن عباس ؓ اور سعید بن جبیر کا قول ہے کہ سجّیل سنگ گل کا معرب ہے۔ قتادہ اور عکرمہ کا قول ہے کہ سجّیل سے مراد ہے کیچڑ ‘ کیونکہ آیت میں آیا ہے : لنرسل علیھم حجارۃ من طین۔ مجاہد نے کہا : شروع میں پتھر اور آخر میں (خشک) کیچڑ کی بارش کی۔ حسن نے کہا : وہ پتھر اصل میں کیچڑ ہی کے تھے ‘ کیچڑ (خشک ہو کر) پتھر ہوگئی تھی۔ صحاک نے کہا : سجّیل سے مراد ہی پختہ اینٹیں۔ بعض علماء نے کہا کہ سجّیل کا لفظ اَسْجَلَ سے بنا ہے۔ اِسجال کا معنی ہے : رواں کردینا ‘ دے دیا۔ گویا ہر پتھر بھیجا ہوا اور دیا ہوا تھا۔ یا سجِلٌّ سے ماخوذ ہے ‘ سجل لکھا ہوا۔ یعنی اللہ نے پتھروں پر لکھ دیا تھا کہ قوم لوط کو ان سے عذاب دیا جائے گا۔ بعض نے کہا : سجّیل اصل میں سجّین (دوزخ کا ایک طبقہ) تھا ‘ نؔ کو لؔ سے بدل دیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیوی آسمان کا نام سجّیل ہے۔ بعض نے کہا کہ سجّیل آسمان میں پہاڑ ہیں۔ اللہ نے فرمایا ہے : وینزل مِنَ السَّمَاءِ مِنْ جِبَال فِیْھَا من برد۔ منضود حضرت ابن عباس ؓ نے اس کا ترجمہ کیا ہے پیہم۔ نَضْدٌ کا معنی ہے : ایک چیز پر دوسری چیز چننا۔
Top