Ruh-ul-Quran - Hud : 82
فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ١ۙ۬ مَّنْضُوْدٍۙ
فَلَمَّا : پس جب جَآءَ : آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم جَعَلْنَا : ہم نے کردیا عَالِيَهَا : اس کا اوپر (بلند) سَافِلَهَا : اس کا نیچا (پست) وَاَمْطَرْنَا : اور ہم نے برسائے عَلَيْهَا : اس پر حِجَارَةً : پتھر مِّنْ سِجِّيْلٍ : کنکر (سنگریزہ) مَّنْضُوْدٍ : تہہ بہ تہہ
پس جب آپہنچا ہمارا عذاب تو ہم نے اس کی بلندی کو اس کی پستی کردیا اور اس پر سنگ گِل کی بارش کی، تہ بہ تہ
فَلَمَّا جَآئَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ 5 لا مَّنْضُوْدٍ ۔ مُّسْوَّمَۃً عِنْدَرَبِّکَ ط وَمَا ھِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعْیِدٍ ۔ (سورۃ ہود : 82، 83) (پس جب آپہنچا ہمارا عذاب تو ہم نے اس کی بلندی کو اس کی پستی کردیا اور اس پر سنگ گِل کی بارش کی، تہ بہ تہ جن پر تمہارے رب کے پاس سے نشان لگے ہوئے تھے اور لوط کی بستی ظالموں سے کچھ دور نہیں۔ ) قوم لوط پر عذاب صبح ہوتے ہی قوم لوط پر اللہ کا عذاب ٹوٹ پڑا۔ اس عذاب کی صورت کیا تھی ؟ حقیقت تو اللہ جانتا ہے، لیکن آیت کے الفاظ یہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے ان کی زمین کو شق کیا گیا جس سے پستیاں بلندیوں میں اور بلندیاں پستیوں میں تبدیل ہوگئیں۔ ممکن ہے شدید زلزلہ آیا ہو اور ممکن ہے آتش فشاں پہاڑ پھٹے ہوں۔ اس کے ساتھ ہی تیز آندھی اٹھی جو اس قدر شدید ہوگئی کہ اس نے ان بستیوں پر پتھروں کی بارش کی۔ عمارتیں پہلے ہی تباہ ہوچکی تھیں، پتھروں کی بارش نے ان کا حلیہ تک بگاڑ دیا۔ بعض اہل علم کے نزدیک سجیل کی بارش سے مراد وہ مٹی کے ڈھیلے ہیں جسے آگ نے پتھروں میں تبدیل کردیا تھا۔ ان کے نزدیک سجیل سنگ گِل کا معرب ہے اور یہ پتھروں کی بارش اس تسلسل سے ہوئی کہ اس کے تہ بہ تہ ڈھیر لگ گئے۔ مَنْضُوْدٍ سے مراد یا تو یہی پتھروں کے ڈھیر ہیں اور یا اس بارش کا پے در پے اور لگاتار ہونا ہے۔ مُّسْوَّمَۃً کا لفظ یہ بتاتا ہے کہ ان پر ایسی مہریں لگی ہوئی تھیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ اللہ کی جانب سے کسی الٰہی ٹکسال میں ڈھل کے نکلے ہیں۔ اور دوسرا مطلب اس کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان میں سے ہر پتھر پر ہر اس کافر اور فاسق کا نام کندہ تھا جس پر اس پتھر کو گرنا تھا۔ قوم لوط کی بستیاں اس طرح تباہ کی گئیں کہ وہاں خاک سیاہ کے سوا کچھ نہ بچا۔ یہ بستیاں اس جگہ آباد تھیں جہاں آج کل بحر مردار یا بحر لوط ہے۔ کہتے ہیں اب بھی بحر لوط سے دھویں کے بادل اٹھتے رہتے ہیں اور کثرت سے زلزلے آتے رہتے ہیں۔ آخر میں مشرکینِ مکہ کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ تم نے جس قوم لوط کی ہولناک داستان سنی ہے، اس قوم کے نشانات تم سے دور نہیں۔ تم اپنے تجارتی اسفار میں وہاں سے گزرتے ہو۔ تم بڑی آسانی سے اس تباہ شدہ قوم کے آثار دیکھ سکتے ہو اور اس کے گردوپیش میں بسنے والی قوموں سے معلوم کرسکتے ہو کہ یہاں واقعی قوم لوط آباد تھی۔
Top