Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 72
وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ بَنِیْنَ وَ حَفَدَةً وَّ رَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ١ؕ اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَ بِنِعْمَتِ اللّٰهِ هُمْ یَكْفُرُوْنَۙ
وَاللّٰهُ : اور اللہ جَعَلَ : بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے اَنْفُسِكُمْ : تم میں سے اَزْوَاجًا : بیویاں وَّجَعَلَ : اور بنایا (پیدا کیا) لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے اَزْوَاجِكُمْ : تمہاری بیویاں بَنِيْنَ : بیٹے وَحَفَدَةً : اور پوتے وَّرَزَقَكُمْ : اور تمہیں عطا کیا مِّنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاک چیزیں اَفَبِالْبَاطِلِ : تو کیا باطل کو يُؤْمِنُوْنَ : وہ مانتے ہیں وَ : اور بِنِعْمَةِ : نعمت اللّٰهِ : اللہ هُمْ : وہ يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے ہیں
اور خدا ہی نے تم میں سے تمہارے لیے عورتیں پیدا کیں اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور کھانے کو تمہیں پاکیزہ چیزیں دیں۔ تو کیا بےاصل چیزوں پر اعتقاد رکھتے اور خدا کی نعمتوں سے انکار کرتے ہیں
وا اللہ جعل لکم من انفکسم ازواجا جعل لکم من ازواجکم بنین وحفدۃ اور اللہ ہی نے تم میں سے (یعنی تمہاری جنس میں سے) تمہارے لئے تمہاری بیبیاں بنائیں اور بیبیوں سے تم کو بیٹے پوتے عنایت کئے۔ تمہاری جنس سے تمہاری بیبیاں بنائیں تاکہ تم کو ان سے انس خاطر حاصل ہو اور تمہاری اولاد تمہاری جنس کی ہو (یعنی آدمی ہو) ۔ بعض علماء نے جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اللہ نے حضرت حواء کو حضرت آدم سے پیدا کیا ‘ پھر باقی تمام عورتوں کو مردوں اور عورتوں کے نطفہ سے بنایا۔ حَفَدَۃً اولاد کی اولاد اور تیز دست خادم۔ صاحب قاموس نے لکھا ہے : حَفَدَ (ماضی) یَحْفِدُ (مضارع) حَفْدًا اور حفدانًا (مصدر) کام میں تیزی کی ‘ سبکدستی سے کام کیا۔ اِحْتَفَدَ (باب افتعال) کا بھی یہی معنی ہے۔ حَفَدَ کا معنی خَدَمَ بھی ہے (خدمت کی) ۔ حَفَدَۃً ‘ حَافِدٌ کی جمع ہے : خادم ‘ کارگزار۔ حَفَدَۃً اور حَفِیْدٌ اولاد ‘ اولاد کی اولاد ‘ خسر اور لڑکیاں۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن مسعود اور نخعی نے فرمایا : (آیت میں) حَفَدَۃً سے مراد ہیں : داماد۔ دوسری روایت میں حضرت ابن مسعود کا قول آیا ہے کہ حَفَدَۃً سے مراد ہیں : خسر۔ اس قول پر آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ اللہ نے تمہاری بیبیوں سے تم کو نر ‘ مادہ اولاد عطا کی اور ان کے نکاح کردینے سے خسر اور داماد تمہارے لئے مقرر کئے۔ عکرمہ ‘ حسن اور ضحاک نے کہا : آیت میں خادم مراد ہیں۔ مجاہد نے کہا : کارگذار کارندے مراد ہیں۔ عطاء نے کہا : وہ اولاد مراد ہے جو مددگار اور خادم ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں : ان تمام اقوال کی بناء پر آیت میں حَفَدَۃً سے مراد ہیں : بیٹے اور بَنِیْنَ پر حَفَدَۃً کا عطف وصفی تغایر کی وجہ سے کیا گیا (بَنِیْنَ میں نسبی حالت اور حَفَدَۃً میں خدمت کی حالت ملحوظ رکھی گئی) بیضاوی نے متعدد توجیہات میں سے ایک توجیہ (حسب مذکور بالا) لکھی ہے۔ مقاتل اور کلبی نے کہا : بَنِیْنَ سے چھوٹے بچے اور حَفَدَۃً سے بڑی اولاد مراد ہے جو چھوٹے بچوں کی خدمت کرتی اور ان کی مدد کرتی ہے۔ قتادہ نے کہا : وہ اولاد مراد ہے جو تمہاری خدمت اور کام کاج کرتی ہے۔ مجاہد اور سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ حَفَدَۃً سے مراد اولاد کی اولاد ہے۔ عوفی کی روایت میں حضرت ابن عباس کا قول آیا ہے کہ اپنی بیوی کے بچے مراد ہیں جو پہلے شوہر سے ہوں۔ میں کہتا ہوں : شاید حَفَدَۃً کہنے کی وجہ تسمیہ اس صورت میں یہ ہو کہ (حَفَدَۃً لغت میں خادموں کو کہتے ہیں اور) بیوی کے بچوں سے آدمی وہ کام لیتا ہے جو اپنی اولاد سے نہیں لیتا ‘ اسلئے بیوی کے بچوں کو حَفَدَۃً کہا گیا۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ منجملہ دوسرے معانی کے آیت میں ایک مرادی معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حَفَدَۃً سے مراد ہیں : بیٹیاں ‘ گھروں کے اندر بیٹیاں ہی (زیادہ) کام کاج کرتی ہیں۔ ورزقکم من الطیبت اور تم کو اچھی اچھی چیزیں کھانے پینے کو دیں۔ طَیِّبَات لذیذ چیزیں ‘ یا حلال چیزیں۔ مِنْ تبعیضیہ ہے۔ دنیا کی نعمتیں ‘ آخرت کی نعمتوں کا نمونہ ہیں ‘ یہاں کل نعمتیں موجود نہیں ہیں۔ افبالباطل یؤمنون وبنعمت اللہ ھم یکفرون کیا پھر بھی وہ بےبنیاد بات کو مانتے رہیں گے اور اللہ کی نعمت سے ناشکری کرتے رہیں گے ؟ یعنی بتوں کو نفع رساں سمجھتے رہیں گے اور ان کی دی ہوئی نعمتوں کی نسبت بتوں کی طرف کرتے رہیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے ارشاد فرمایا : میرا اور (کافر) جن و انس کا ایک عظیم واقعہ (یعنی عجیب معاملہ) ہے۔ پیدا میں کرتا ہوں اور پوجا دوسروں کی کی جاتی ہے ‘ رزق میں دیتا ہوں اور شکر دوسروں کا کیا جاتا ہے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ باطل سے مراد ہے : بحیرہ ‘ سائبہ اور وصیلہ کی ازخود باغواء شیطانی تحریم (یہ تینوں قسمیں بحار اونٹوں یا سانڈھوں کے عرب میں ہوتی تھیں۔ بعض کا گوشت کھانا اور سواری لینا اور بوجھ لادنا مشرکوں نے حرام کر رکھا تھا) ۔ یعنی بحیرہ وغیرہ کی حرمت کا تو یہ لوگ عقیدہ رکھتے ہیں اور اللہ کے حلال و پاکیزہ رزق کی حلت کا انکار کرتے ہیں۔ بعض نے کہا : باطل شیطان ہے اور اللہ کی نعمت رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارک۔
Top