Tafheem-ul-Quran - An-Nahl : 72
وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ بَنِیْنَ وَ حَفَدَةً وَّ رَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ١ؕ اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَ بِنِعْمَتِ اللّٰهِ هُمْ یَكْفُرُوْنَۙ
وَاللّٰهُ : اور اللہ جَعَلَ : بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے اَنْفُسِكُمْ : تم میں سے اَزْوَاجًا : بیویاں وَّجَعَلَ : اور بنایا (پیدا کیا) لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے اَزْوَاجِكُمْ : تمہاری بیویاں بَنِيْنَ : بیٹے وَحَفَدَةً : اور پوتے وَّرَزَقَكُمْ : اور تمہیں عطا کیا مِّنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاک چیزیں اَفَبِالْبَاطِلِ : تو کیا باطل کو يُؤْمِنُوْنَ : وہ مانتے ہیں وَ : اور بِنِعْمَةِ : نعمت اللّٰهِ : اللہ هُمْ : وہ يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے ہیں
اور وہ اللہ ہی جس نے تمہارے لیے تمہاری ہم جنس بیویاں بنائیں اور اسی نے ان بیویوں سے تمہیں بیٹے پوتے عطا کیے اور اچھی اچھی چیزیں تمہیں کھانے کو دیں۔ پھر کیا یہ لوگ (یہ سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی)باطل کو مانتے ہیں63 اور اللہ کے احسان کا انکار کرتے ہیں64
سورة النَّحْل 63 ”باطل کو مانتے ہیں“ ، یعنی یہ بےبنیاد اور بےحقیقت عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کی قسمتیں بنانا اور بگاڑنا، ان کی مرادیں بر لانا اور دعائیں سننا، انہیں اولاد دینا، ان کو روزگار دلوانا، ان کے مقدمے جتوانا، اور انہیں بیماریوں سے بچانا کچھ دیویوں اور دیوتاؤں اور جنوں اور اگلے پچھلے بزرگوں کے اختیار میں ہے۔ سورة النَّحْل 64 اگرچہ مشرکین مکہ اس بات سے انکار نہیں کرتے تھے کہ یہ ساری نعمتیں اللہ کی دی ہوئی ہیں، اور ان نعمتوں پر اللہ کا احسان ماننے سے بھی انہیں انکار نہ تھا، لیکن جو غلطی وہ کرتے تھے وہ یہ تھی کہ ان نعمتوں پر اللہ کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ ان بہت سی ہستیوں کا شکریہ بھی زبان اور عمل سے ادا کرتے تھے جن کو انہوں نے بلا کسی ثبوت اور بلا کسی سند کے اس نعمت بخشی میں دخیل اور حصہ دار ٹھیرا رکھا تھا۔ اسی چیز کو قرآن ”اللہ کے احسان کا انکار ”قرار دیتا ہے۔ قرآن میں یہ بات بطور ایک قاعدہ کلیہ کے پیش کی گئی ہے کہ محسن کے احسان کا شکریہ غیر محسن کو ادا کرنا دراصل محسن کے احسان کا انکار کرنا ہے۔ اسی طرح قرآن یہ بات بھی اصول کے طور پر بیان کرتا ہے کہ محسن کے متعلق بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے یہ گمان کرلینا کہ اس نے خود اپنے فضل و کرم سے یہ احسان نہیں کیا ہے بلکہ فلاں شخص کے طفیل، یا فلاں کی رعایت سے، یا فلاں کی سفارش سے، یا فلاں کی مداخلت سے کیا ہے، یہ بھی دراصل اس کے احسان کا انکار ہی ہے۔ یہ دونوں اصولی باتیں سراسر انصاف اور عقل عام کے مطابق ہیں۔ ہر شخص خود بادنی تأمل ان کی معقولیت سمجھ سکتا ہے۔ فرض کیجیے کہ آپ ایک حاجت مند آدمی پر رحم کھا کر اس کی مدد کرتے ہیں، اور وہ اسی وقت اٹھ کر آپ کے سامنے ایک دوسرے آدمی کا شکریہ ادا کردیتا ہے جس کا اس امداد میں کوئی دخل نہ تھا۔ آپ چاہے اپنی فراخ دلی کی بنا پر اس کی اس بیہودگی کو نظر انداز کردیں اور آئندہ بھی اپنی امداد کا سلسلہ جاری رکھیں، مگر اپنے دل میں یہ ضرور سمجھیں گے کہ یہ ایک نہایت بدتمیز اور احسان فراموش آدمی ہے۔ پھر اگر دریافت کرنے پر آپ کو معلوم ہو کہ اس شخص نے یہ حرکت اس خیال کی بنا پر کی تھی کہ آپ نے اس کی جو کچھ بھی مدد کی ہے وہ اپنی نیک دلی اور فیاضی کی وجہ سے نہیں کی بلکہ اس دوسرے شخص کی خاطر کی ہے، درآنحالیکہ یہ واقعہ نہ تھا، تو آپ لا محالہ اسے اپنی توہین سمجھیں گے۔ اس کی اس بیہودہ تاویل کا صریح مطلب آپ کے نزدیک یہ ہوگا کہ وہ آپ سے سخت بدگمان ہے اور آپ کے متعلق یہ رائے رکھتا ہے کہ آپ کوئی رحیم اور شفیق انسان نہیں ہیں، بلکہ محض ایک دوست نواز اور یارباش آدمی ہیں، چند لگے بندھے دوستوں کے توسُّل سے کوئی آئے تو آپ اس کی مدد ان دوستوں کی خاطر کردیتے ہیں، ورنہ آپ کے ہاتھ سے کسی کو کچھ فیض حاصل نہیں ہو سکتا۔
Top