Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 30
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا رَبُّکَ : تمہارے رب نے لِلْمَلَائِکَةِ : فرشتوں سے اِنِّیْ : میں جَاعِلٌ : بنانے والا ہوں فِي الْاَرْضِ : زمین میں خَلِیْفَةً : ایک نائب قَالُوْا : انہوں نے کہا اَتَجْعَلُ : کیا آپ بنائیں گے فِیْهَا : اس میں مَنْ يُفْسِدُ : جو فساد کرے گا فِیْهَا : اس میں وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ : اور بہائے گا خون وَنَحْنُ : اور ہم نُسَبِّحُ : بےعیب کہتے ہیں بِحَمْدِکَ : آپ کی تعریف کے ساتھ وَنُقَدِّسُ : اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں لَکَ : آپ کی قَالَ : اس نے کہا اِنِّیْ : بیشک میں اَعْلَمُ : جانتا ہوں مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور (وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں (اپنا) نائب بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا۔ کیا تُو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت وخون کرتا پھرے اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح وتقدیس کرتے رہتے ہیں۔ (خدا نے) فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ ( اور یاد کیجئے اے محمد ﷺ اس وقت کا تذکرہ جبکہ تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا) اب یہاں سے جناب باری ایک تیسری نعمت کو بیان فرماتے ہیں کیونکہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کو پیدا کرنا اور انہیں تمام فرشتوں پر فضیلت کا دینا ایسی نعمت ہے کہ کل اولاد آدم کو شامل ہے اور اس کلام سے طاعات کے ادا کرنے اور معاصی سے اجتناب کرنے کی ترغیب مستفاد ہوتی ہے۔ علامہ بغوی نے فرمایا ہے کہ حق تعالیٰ نے اوّل آسمان اور زمین اور ملائکہ کو پیدا کیا ملائکہ کو آسمان میں اور جنوں کو زمین میں بسایا۔ جن ایک مدت دراز تک زمین میں آباد رہے۔ پھر ان میں حسد، عداوت اور بغاوت پھیل گئی اور آپس میں فساد اور خون ریزی شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کا ایک گروہ زمین کو ان مفسدوں سے پاک کرنے کے لیے بھیجا۔ ان فرشتوں کو بھی جن کہا جاتا تھا اور وہ فرشتے جنت کے محافظ تھے اور ان کا نام جن جنت سے مشتق کیا گیا ہے کیونکہ وہ جنت کے محافظ تھے اور ان سب کا سردار و مرشد اور سب سے زیادہ عالم ابلیس تھا تو وہ سب کے سب بحکم الٰہی زمین پر اترے اور جنوں کو پہاڑوں کی کھو وں اور جزیروں میں نکال دیا اور خود زمین میں آباد ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ان پر ہلکی فرما دی اور ابلیس کو زمین اور آسمان دنیا کی سلطنت اور جنت کی محافظت عطا فرمائی تو وہ کبھی اللہ تعالیٰ کی عبادت زمین میں کرتا تھا کبھی آسمان میں کبھی جنت میں بس ان مراتب جلیلہ کے باعث اسے غرور ہوگیا اور اپنے دل میں کہنے لگا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ سلطنت و مرتبہ اس لیے عطا کیا ہے کہ میں سب فرشتوں سے زیادہ بزرگ ہوجاؤں تو حق تعالیٰ نے اسے اور اس کے لشکر کو ذیل کی آیت سے خطاب فرمایا۔ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً ( بیشک میں زمین میں ایک خلیفہ ( نائب) بنانے والا ہوں) علامہ بغوی کی روایت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ابلیس فرشتہ تھا اور اس پر آیت : فَسَجَد الْمَلَاءِکَۃُ کُلُّھُمْ اَجْمَعُوْنَ اِلَّا اِبْلِیسَمیں جو استثناء واقع ہوا ہے دلالت کرتا ہے اور جو کوئی یہ کہے کہ مسلم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مٹی کو ہفتہ کے دن پیدا کیا اور اس میں پہاڑوں کو یکشنبہ کے دن اور درختوں کو دو شنبہ کے دن اور مکروہ کو سہ شنبہ کے دن اور نور کو چہار شنبہ کے دن اور چوپاؤں کو زمین میں پنجشنبہ کے دن پیدا کیا اور حضرت آدم کو جمعہ کے دن تمام مخلوق کے بعد دن کی اخیر ساعت میں مابین عصر اور رات کے پیدا کیا۔ تو اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) زمین سے چھ دن بعد پید اکئے گئے پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس مدت دراز تک زمین میں آباد رہے ہوں اور پھر انہیں پہاڑوں میں نکال دیا ہو اور اس میں ابلیس مع لشکر خود اور فرشتے ایک عرصہ دراز تک سکونت پذیر رہے ہوں اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ فرمایا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں۔ تو جواب اس کا یہ ہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جس جمعہ کو حضرت آدم ( علیہ السلام) پیدا کئے گئے ہیں یہ وہی جمعہ ہے جو زمین کے پیدا کرنے کے بعد آیا تھا ممکن ہے کہ وہ جمعہ اور ہو جو مدتوں کے بعد آیا ہو اور یہ تاویل اس حدیث میں ضروری ہے اس لیے کہ اگر یہ تاویل نہ کی جائے گی تو یہ لازم آتا ہے کہ آسمان اور زمین وغیرہ سات روز کے اندر پیدا ہوئے ہیں حالانکہ قرآن مجید سے یہ ثابت ہے کہ آسمان اور زمین چھ دن میں پیدا کئے گئے ہیں۔ واللہ اعلم خلیفہ سے مراد حضرت آدم ( علیہ السلام) ہیں کیونکہ وہ احکام الٰہیہ اور ضوابط کے اجراء اور بندوں کی ہدایت اور انہیں اللہ کی طرف دعوت دینے اور مراتب قرب پر فائز کرانے کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ تھے۔ انکے خلیفہ بنانے کی کچھ یہ وجہ نہ تھی کہ خدا تعالیٰ کو انکی حاجت تھی وہ تو غنی اور بےنیاز ہے اسے کسی شئے کی بھی حاجت نہیں بلکہ وجہ یہ ہے کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) جن لوگوں کے خلیفہ بنائے گئے وہ حق تعالیٰ سے بلاواسطہ مستفیض نہیں ہوسکتے تھے اور نہ اس کے اوامر کو بلاوسیلہ اخذ کرسکتے تھے پھر حضرت آدم ( علیہ السلام) کے بعد ہر نبی خدا کا خلیفہ ہوا۔ قَالُوْٓا (فرشتوں نے عرض کیا) یہ بطور تعجب اور استفاضہ عرض کیا تھا نہ اعتراض اور حسد کے طور پر کیونکہ فرشتوں کی شان میں عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ فرمایا گیا ہے۔ اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاۗءَ ۚ (اے پروردگار) ( کیا تو زمین میں ایسے شخص کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد اور خونریزی کرے) فساد اور خونریزی کرنے والوں سے مراد اولاد آدم ( علیہ السلام) ہے ان کا فساد اور خونریزی کرنا انہیں حق تعالیٰ کے اطلاع دینے سے معلوم ہوگیا تھا۔ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ ( حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں) یہ جملہ ترکیب میں حال واقع ہوا ہے جو سبب اشکال کو اور زیادہ قوت دینے والا ہے آیت کے حاصل معنی یہ ہیں کہ اے پروردگار کیا تو نافرمانوں کو خلیفہ بناتا ہے۔ حالانکہ ہم معصوم اور مستحق خلافت ہیں۔ تسبیح کے معنی اللہ تعالیٰ کو برائی سے منزہ اور پاک سمجھنے اور بیان کرنے کے ہیں۔ سبح فی الارض و الماء سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ” دور چلا گیا زمین اور پانی میں “ اور بِحَمْدِکَ محل میں حال کے ہے کہ جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم تیری تسبیح کرتے ہیں اس حال میں کہ تیری حمد بھی اس پر کرتے ہیں کہ تو نے ہمیں اپنی تسبیح کی توفیق عطا فرمائی۔ وَنُقَدِّسُ لَكَ ( اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں) تقدیس بھی تسبیح کے معنوں میں ہے۔ قدس نجاستوں سے پاک ہوا اور نُقَدِّسُ لَکَ میں لام یا تو زائدہ ہے اور یا زائدہ نہیں۔ زائدہ نہ ہونے کی صورت میں یہ معنی ہونگے کہ ہم تیرے لیے اپنے نفسوں کو گناہوں سے پاک کرتے ہیں یعنی اس وقت نُقَدِّسُ کا مفعول محذوف ہوگا اور زائد ہونے کی صورت میں ظاہر ہے کہ مفعول ضمیر ک ہے۔ فرشتوں نے فساد کے مقابل میں جس سے مراد شرک ہے تسبیح کو قرار دیا اور خونریزی کے مقابل میں تقدیس کو گویا یہ عرض کیا کہ آدمی فساد کریں گے اور ہم ان کے مقابلہ میں تقدیس کرتے ہیں فخر عالم ﷺ سے کسی نے عرض کیا کہ حضور کونسا کلام افضل ہے ؟ فرمایا : وہ جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے لیے اختیار فرمایا اور وہ یہ ہے سُبْحَان اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ اس حدیث کو مسلم نے حضرت ابوذر ؓ سے روایت کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ کلمات خلق کے لیے رحمت کے باعث ہیں اور ان ہی کے باعث خلق کو رزق ملتا ہے اسے ابن ابی شیبہ نے حضرت جابر ؓ سے اور علامہ بغوی (رح) نے حسن ؓ سے روایت کیا ہے۔ قَالَ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ( خدا نے فرمایا میں وہ مصلحتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے نافع اور ابن کثیر اور ابو عمرو نے انّی کو یا کے فتح سے پڑھا ہے اور دوسرے قاریوں نے سکون سے۔ ملائکہ اللہ تعالیٰ کے خبر دینے سے یہ جانتے تھے کہ بعض انسان نیک اور فرمانبردار ہونگے اور بعض نافرمان و کفار اس لیے انہیں یہ اعتقاد ہوگیا کہ ملائکہ انسان سے افضل ہیں کیونکہ وہ سب کے سب معصوم ہیں خدا کی نافرمانی نہیں کرتے جو حکم کردیئے گئے اس کے موافق کرتے ہیں اور اسی بناء پر یہ بھی سمجھ گئے کہ ہمیں خلیفہ بنانا اولیٰ اور بشرکو خلافت کا عطا فرمانا فساد کا سبب ہوگا۔ چناچہ جو فسادی تھے ان سے فساد ہی واقع ہوا اور ہو رہا ہے مگر انہوں نے یہ نہ جانا کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے بعض کے دلوں میں اپنی حقیقی محبت امانت رکھیں گے کہ اس کے سبب انہیں معیت ذاتیہ اور محبوبیت خالص نصیب ہوگی چناچہ سید المحبوبین سرور کائنات علیہ الصلوٰت والتحیات نے فرمایا : اَلْمَرْ مَع مَنْ اَحَبَّ ۔ 1 ؂ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے ابن مسعود اور انس ؓ سے اور ابن حبان نے انس ؓ سے روایت کیا ہے۔ حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرا بندہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قرب طلب کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اسے دوست رکھتا ہوں اور جب میں اسے دوست رکھتا ہوں تو میں ہی اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور میں ہی اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے فرشتوں نے یہ نہ سمجھا کہ بارگاہ الٰہی میں آدمی کو وہ قرب اور منزلت ہوگی کہ دوسرے کے لیے وہ کسی طرح تصور ہی نہیں ہوسکتی اور اس کے نیک بندوں کو مرتبہ تقرب نصیب ہوگا۔ مسلم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کو ایک شخص سے فرمائے گا۔ اے ابن آدم ( علیہ السلام) ! میں بیمار ہوا تھا تو نے میری عیادت نہ کی ؟ وہ کہے گا پروردگار میں آپ کی عیادت کس طرح کرتا آپ تو رب العٰلمین ہیں امراض سے پاک ہیں۔ ارشاد ہوگا تجھے یاد نہیں میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تھا تو نے اس کی عیادت نہ کی اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ پھر ارشاد ہوگا کہ اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا اور تو نے نہ دیا وہ پھر مثل سابق عرض کرے گا 2 ؂۔ جاننا چاہئے کہ اکابر صوفیہ (رح) کے نزدیک یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ جیسے سورج کی روشنی کو زمین اپنی کثافت کے سبب برداشت کرسکتی ہے اور دیگر عناصر لطافت کے سبب متحمل نہیں ہوسکتے اسی طرح تجلی ذاتی کو بھی عنصر خاکی ہی برداشت کرسکتا ہے اور باقی عناصر میں جتنی کثافت ہے اس کے سبب تجلی صفاتی کو تو برداشت کر بھی سکتے ہیں مگر تجلی ذاتی کے متحمل نہیں ہوسکتے اور عالم امر کے لطائف چونکہ لطیف ہیں اس لیے انہیں تجلیات ذاتیہ سے تو حصہ ملتا نہیں لیکن تجلیات ظلیہ سے کچھ بہرہ مل جاتا ہے اور انسان چونکہ ان دس لطائف سے مرکب ہے جو اجزاء عالم کبیر ہیں اور سوائے انسان کے اور افراد عالم میں یہ لطائف مجتمع نہیں اس لیے وہ خلافت کے کے قابل اور اس بار امانت کا حامل ہوا جس کی نسبت حق تعالیٰ نے فرمایا : اِنَّا عَرَضْنَا الْاَامَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَ حَمَلَھَا الْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْماً جَھُوْلاً ( نبے شک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو سب اس کے اٹھانے سے خائف ہوئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا بیشک وہ بڑا ظالم و جاہل تھا) ظالم تو اس لیے فرمایا کہ اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا کہ جس شے کی برداشت کی طاقت نہ تھی اس کی برداشت کی اور جاہل اس لیے کہ اس نے بار امانت کی عظمت کو نہ جانا اور یہ انسان گو بظاہر عالم صغیر کہلاتا ہے مگر واقع میں عالم کبیر سے بڑھ کر ہے۔ چناچہ حق تعالیٰ نے فرمایا : مجھے نہ میری زمین سما سکتی ہے نہ آسمان مگر مؤمن بندہ کامل کا قلب مجھے سما سکتا ہے القصہ جب حق تعالیٰ ملائکہ سے یہ فرما چکا : اِنِّیْ اَعْلَمُ تو حضرت آدم کو ادیم زمین یعنی روئے زمین سے پیدا کیا یعنی زمین سے تمام اقسام کی مٹیاں لے کر اسے مختلف پانیوں سے گوندھا پھر ہموار کرکے روح پھونک دی۔ امام احمد ‘ ابو داوٗد، ترمذی، ابن جریر، ابن منذر، ابن مردویہ، حاکم اور بیہقی (رح) نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت کی ہے کہ فخر عالم ﷺ نے فرمایا ہے اللہ نے آدم ( علیہ السلام) کو ایک مشت خاک سے پیدا کیا اور اس مٹی کو تمام روئے زمین کی مٹیوں سے لیا اسی وجہ سے اولاد آدم ( علیہ السلام) میں کوئی سرخ، کوئی گورا، کوئی بین بین، کوئی نرم خو، کوئی ترشرو کوئی ناپاک بدطینت کوئی پاکیزہ منش ہوتا ہے میں کہتا ہوں کہ تمام زمین سے مٹی لینے میں یہ حکمت ہے کہ سب قسم کی استعداد اس میں جمع ہوجائے علامہ بغوی نے کہا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے آپس میں چرچا کیا کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے پیدا کرے مگر ہم سے زیادہ بزرگ کوئی مخلوق پیدا نہ کرے گا اور بالفرض کوئی مخلوق ہم سے زیادہ بزرگ پیدا بھی کی تو علم میں بہر حال ہم ان سے زیادہ ہونگے کیونکہ ایک تو ہم اس سے پہلے پیدا کئے گئے ہیں اور دوسرے ہم وہ عجائبات دیکھ چکے ہیں جو اس مخلوق نے دیکھے بھی نہیں تو اس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کی فضیلت کو ان پر ظاہر فرمایا چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔
Top