Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 31
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓئِكَةِ١ۙ فَقَالَ اَنْۢبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَعَلَّمَ
: اور سکھائے
آدَمَ
: آدم
الْاَسْمَآءَ
: نام
كُلَّهَا
: سب چیزیں
ثُمَّ
: پھر
عَرَضَهُمْ
: انہیں سامنے کیا
عَلَى
: پر
الْمَلَائِکَةِ
: فرشتے
فَقَالَ
: پھر کہا
اَنْبِئُوْنِیْ
: مجھ کو بتلاؤ
بِاَسْمَآءِ
: نام
هٰٓؤُلَآءِ
: ان
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
صَادِقِیْنَ
: سچے
اور اس نے آدم کو سب (چیزوں کے) نام سکھائے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّهَا (اور سکھا دئیے اللہ تعالیٰ نے آدم کو سب کے نام) مفسرین نے اس میں اختلاف کیا ہے کہ حضرت آدم کو اللہ تعالیٰ نے کن چیزوں کے نام سکھلائے۔ جمہور مفسرین تو یہ کہتے ہیں کہ تمام خلائق کے نام سکھلائے بغوی کہتے ہیں کہ ابن عباس ؓ ، مجاہد، قتادہ (رح) نے فرمایا ہے کہ ہر شے کا نام سکھا دیا حتیٰ کہ پیالہ، پیالی کا نام بھی۔ بعض نے کہا ہے کہ جو کچھ پہلے ہوچکا ہے اور جو آئندہ ہوگا سب کے نام بتلا دیئے ربیع بن انس کہتے ہیں کہ ملائکہ کے نام سکھا دئیے بعض نے کہا اولاد کے نام اور بعض نے کہا ہر قسم کی صنعت اہل تاویل نے کہا تمام لغات سکھا دئیے اسی لیے اولاد آدم مختلف لغت بولتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ کل اقوال میرے نزدیک غیر پسندیدہ ہیں کیونکہ بزرگی کا مدارو مبنیٰ کثرت ثواب اور مراتب قرب پر ہے نہ ان امور پر اور جو یہی امور مدار فضیلت ہوتے تو یہ لازم آتا کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) حضرت خاتم النبیین سید المرسلین ﷺ سے افضل ہوں۔ کیونکہ آپ : ﷺ فرماتے ہیں ” تم اپنے دنیا کے کاموں میں مجھ سے زیادہ واقف ہو “ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ حضور سرور عالم ﷺ تمام لغات کے عالم نہ تھے میرے نزدیک یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ( علیہ السلام) کو تمام اسمائے الٰہیہ تعلیم فرما دیئے اور جو کوئی یہ کہے کہ اسمائے الٰہیہ تو غیر متناہیہ ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : لَوْ کَانَ الْبَحْرَ مِدَادًا لِّکَلِمَاتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّیْ (یعنی اگر سمندر میرے رب کے کلمات لکھنے کے لیے سیاہی ہو تمام سمندر ختم ہوجائے گا قبل اس کے کہ میرے رب کے کلمات ختم ہوں اور دوسری جگہ فرمایا : وَ لَو اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْ بَّعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ کَلِمَات اللّٰہِ پس بشر کا متناہی علم اسماء الٰہیہ کو کس طرح محیط ہوسکتا ہے اور نیز ایک حدیث میں وارد ہے کہ سرور عالم ﷺ نے اپنی ایک دعا میں فرمایا خداوندا میں آپ سے اس نام کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں جس سے آپ نے اپنے ذات پاک کو مسمّٰی فرمایا اور جو نام آپ نے اپنی کتاب میں نازل کئے اور جو نام مخلوق میں سے کسی کو سکھلائے اور ان ناموں کے وسیلہ سے جن کا علم کسی کو نہیں۔ ابن حبان ‘ حاکم ‘ ابن ابی شیبہ ‘ طبرانی اور امام احمد نے حضرت ابن مسعود و ابو موسیٰ اشعری کی روایت سے یہ حدیث نقل کی ہے۔ یہ حدیث صاف اس پر دلالت کر رہی ہے کہ اللہ کے بعض اسماء ایسے بھی ہیں جو اسی کو معلوم ہیں اور مخلوق میں کوئی انہیں نہیں جانتا تو جواب اس اشکال کا یہ ہے کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کو تمام اسماء کا علم حاصل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں تمام اسماء کا تفصیلی علم دیا گیا تھا اگر یہ مراد ہوتی تو البتہ اشکال مذکور وارد ہوتا یہاں اجمالی علم مراد ہے کیونکہ جب انہیں ذات پاک کی معیت نصیب ہوگئی تو انہیں حق تعالیٰ کے ہر اسم و صفت سے ایسی معیت اور تامہ مناسبت حاصل ہوگئی کہ جب وہ کسی اسم یا صفت کی طرف متوجہ ہوتے تھے وہ صفت یا اسم ان پر پر تو فگن ہوجاتا تھا جیسا کسی شخص کو کسی علم میں ایسا ملکہ اور استعداد حاصل ہو کہ جب وہ کسی مسئلہ کی طرف توجہ کرے تو فوراً مستحضر ہوجائے اگر کوئی معترض اعتراض کرے کہ مفسرین میں سے کسی نے بھی اس آیۃ کے یہ معنی بیان نہیں کئے یہ تو محض تمہاری رائے اور قیاس ہے اور قرآن مجید میں اپنی رائے سے کچھ کلام کرنا حرام ہے جیسا کہ علامہ بغیو نے باسانید متعددہ ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص قرآن میں اپنی رائے سے کلام کرے اور ایک روایت میں ہے کہ جو بغیر علم کے قرآن میں کچھ کلام کرے اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانا جہنم میں ڈھونڈ لے تو میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ ہمارے شیخ امام نے فرمایا ہے کہ قرآن میں اپنی رائے سے کلام کرنے والے کے بارے میں جو وعید آئی ہے یہ وعید اس کے لیے ہے جو اپنی طرف سے بغیر علم کے قرآن کی تفسیر کرے یعنی مثلاً اپنی طرف سے اسباب نزول اور اس کے متعلق کوئی قصہ بیان کرے تو یہ جملہ امور نقل کے متعلق ہیں جب تک کسی سے نہ سنے اس بارے میں اپنی رائے اور عقل سے کوئی بات کہنی جائز نہیں اور تفسیر ماخوذ ہے تفسرہ سے۔ تفسرہ کہتے ہیں قارورہ (پانی کی بوتل) ہو جسے طبیب دیکھ کر مرض کا سبب معلوم کرتا ہے اس کے موافق مفسّر اسی کو کہا جائے گا جو آیت کا سبب نزول اور قصہ بیان کرے اور تفسیر کے معنی اسباب نزول بیان کرنے کے ہوں گے تو اب یہ بات واضح ہوگئی کہ ممنوع وہ تفسیر ہے جس کے معنی اسباب نزول اور شان نزول بیان کرنے کے ہیں اور تاویل کسی آیت کی ناجائز اور حرام نہیں اور تاویل اسے کہتے ہیں کہ آیت کے کوئی معنے جس کا وہ احتمال رکھتی ہے کہ جو ما قبل و ما بعد کے موافق اور کتاب و سنت کے مخالف نہ ہوں بطور استنباط بیان کئے جائیں اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے اور تاویل مشتق ہے اول سے جس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں۔ محاورہ ہے۔ اَوَّلْتہ یعنی صَرَّفْتُہٗ ۔ علامہ بغوی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اُنْزِلَ الْقُرْانُ عَلٰی سَبْعَۃ اَحْرُفٍ لِکُلِّ اٰیَۃٍ مِّنْھَا ظَھْرٌ وََّ بَطْنٌ وَ لِکُلِّ حَدٍّ مَطْلِعٌ ( یعنی قرآن شریف سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے ہر آیت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن اور ہر حد کے لیے ایک محل اطلاع ہے۔ (تفسیر بغوی ج ‘ ص : 11) طبرانی نے عبد اللہ بن مسعود ؓ سے اس روایت کو ان لفظوں سے نقل کیا ہے۔ اُنْزِلَ الْقُرْنَ عَلٰی سَبْعَۃٍ اَحْرُفٍ لِکُلِّ حَرْفٍ مِنْھَا ظَھْرٌ وَ بَطْنٌ وَ لِکُلِّ حَرْفٍ حَدٌّ وَ لِکُلِّ حَدٍّ مَطْلِعٌ۔ علامہ بغوی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے قول لکل حد مطلع میں مطلع کے معنی مصعد یعنی جائے صعود کے ہیں کیونکہ جسے حق تعالیٰ نے علم عطا فرمایا ہے وہ اپنے علم کے ذریعے سے اس پر صعود کرتا ہے (یعنی معانی کے درجات پر اطلاع پاتا ہے) اور یہ کچھ تعجب کی بات نہیں کہ جو آیات میں تدبر و تفکر کرتا ہے حق تعالیٰ اس پر معانی کے وہ ابواب مفتوح فرماتا ہے کہ وہ لوگ ان سے محروم رہتے ہیں حق تعالیٰ فرماتا ہے : وَ فَوْق کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ یعنی جو علم والا ہے اس سے زیادہ عالم ہے ختم ہوا کلام امام بغوی (رح) کا۔ میں کہتا ہوں کہ میں نے جو کچھ اس آیت کے تحت میں لکھا ہے اگر اس پر منقول ہونے کے سبب اعتراض کیا جاتا ہے تو اس سے پہلے جو اقوال مفسرین کے گذرے ہیں ان میں سے کوئی قول بھی نہ تو مرفوع و منقول ہے اور نہ ایسا ہے جو صرف رائے سے معلوم نہ ہو سکے اگر تصریحاً مرفوع نہ ہوتا اور رائے سے غیر مدرک ہوتا تب بھی کہہ سکتے تھے کہ یہ مرفوع کے حکم میں ہے۔ بلکہ یہ تمام اقوال تاویلات ہیں جو ان کے افکار کا نتیجہ ہیں اور اسی لئے ان اقوال میں باہم اختلاف ہے پس اسی طرح یہ تاویل جو میں نے لکھی ہے من جملہ ان ہی تاویلات کے ہے۔ ابن عباس ؓ نے جو فرمایا ہے کہ ہر شے کا نام سکھا دیا حتیٰ کہ پیالے اور پیالی کا بھی اور نیز یہ جو بعض نے تفسیر کی ہے کہ جو کچھ ہوا اور جو ہونے والا ہے سب کے نام سکھا دیئے اور تمام ذریتہ کے نام تعلیم فرما دیئے اور بعض نے کہا ہے کہ ہر شے کا بنانا سکھا دیا تو یہ کل اقوال اسماءِ الٰہیہ کی تعلیم کے ( جو ہم نے توجیہ کی ہے) منافی نہیں بلکہ یہ ایسی توجیہ ہے جو ان سب اقوال اور اس سے زائد کو شامل ہے کیونکہ اسماء الٰہیہ میں الاَوَّلُ ہے کہ جس کے یہ معنی ہیں کہ کوئی شے اس سے پہلے نہ تھی اَلْاخِرُ یعنی کوئی شے اس کے بعد نہیں الظَّاھِرُکوئی شے اس کے اوپر نہیں۔ اَلْبَاطِنُ کوئی شے اس کے نیچے نہیں۔ ابن عباس نے ممکنات کے نام پر اس لیے اکتفا فرمایا تاکہ عوام کی سمجھ میں آجائے اور تمام اکابر کی یہی شان تھی کہ لوگوں سے ان کی عقل کے موافق کلام کیا کرتے تھے فقط واللہ اعلم بحقیقۃ الحال۔ ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَي الْمَلٰۗىِٕكَةِ ( پھر ان اشیاء کو فرشتوں کے سامنے کیا) مفسرین نے کہا ہے کہ عَرَضَھُمْ میں ضمیر ھم ان اشیاء کی طرف راجع ہے جن کے اسماء حضرت آدم ( علیہ السلام) کو تعلیم کئے گئے تھے اور وہ اشیاء اگرچہ پہلے حقیقتاً مذکور نہیں مگر تقدیراً مذکور ہیں کیونکہ وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاءَ کی تقدیر وَ عَلَّمَ اٰدَمَ اسماء المسمیات ہے مضاف الیہ یعنی المسمیات حذف کرکے الف و لام تعریف کا اس کے عوض مضاف پر لے آئے جیسا کہ آیت اشْتَعَلَ الرَّاسُ شَیْبًا (بھڑک اٹھا سر بڑھاپے سے) میں الراس پر شعر مضاف محذوف ہے اور ضمیر مذکر کی لانا اس بنا پر ہے کہ مسمیات میں عقلاً بھی شامل ہیں اور جب کہ مراد اَلْاَسْمَآئ سے اسماء الٰہیہ ہوں جیسا کہ ہم نے لکھا ہے تو ضمیرعَرَضَھُمْمیں حضرت آدم ( علیہ السلام) کی طرف راجع ہوگی اور ضمیر جمع کی یا تو تعظیم کے لیے لائی گئی یا آدم سے خود حضرت آدم اور ان کی ذریۃ مراد لی جائے کیونکہ اکثر ہوتا ہے کہ اولاد کو دادا کے نام سے نامزد کردیتے ہیں جیسا کہ ربیعہ و مضر کہ یہ نام ان قبیلوں کے جد اعلیٰ کے ہیں اب قبیلہ کو اسی نام سے پکارتے ہیں چناچہ قاضی بیضاوی نے بھی آیت عَلٰی خَوْفٍ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ مِلْءُھُمْ کی تفسیر میں یہی کہا ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ نے حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پشت سے نکال کر حضرت انبیاء کو فرشتوں پر پیش کیا اور سب سے عہد لیا اور نیز حضرت محمد ﷺ اور حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سب سے محکم عہد لیا اور یہ توجیہ یعنی عَرَضَھُمْکی ضمیر حضرت آدم ( علیہ السلام) کی طرف راجع کرتا انسب اور اولیٰ ہے کیونکہ مسمیات ضمیر سے پہلے مذکور نہیں اور نیز ضمیر مذکر عقلاً کی ہے تو بغیر کسی تکلیف کے ضمیر مسمیات کی طرف راجع نہیں ہوسکتی اور چونکہ حضرت آدم ( علیہ السلام) ضمیر سے پہلے مذکور ہیں اس لیے کچھ تاویل و تکلف کی احتیاج نہیں۔ ابی بن کعب ؓ کی قرأۃ عَرَضَھَا اور حضرت ابن مسعودکیعَرَضَھُنَّ ہے اس لیے ان دونوں قرأتوں کے موافق ضمیر اسماء کی طرف راجع ہوگی۔ فَقَالَ (پھر فرمایا) فرشتوں میں خلافت کی صلاحیت نہ ہونے پر ان کو سرزنش کرنے کے لیے فرمایا : اَنْۢبِــُٔـوْنِىْ بِاَسْمَاۗءِ ھٰٓؤُلَاۗءِ ( مجھے ان کے نام بتاؤ) عامہ مفسرین کی تاویل کے موافق ھٰوءُ لَآءِ کا مشارٌ الیہ مسمیات ہوں گے اور میری توجیہ پر حضرت آدم ( علیہ السلام) اور ان کی ذریت اور اسماء کی اضافت ھٰوءُ لَآءِ کی طرف ادنیٰ ملابست اور تعلق کی وجہ سے ہوگی اور معنی آیت کے یہ ہوں گے کہ آدم اور ان کی ذریت کو جو نام ہم نے سکھائے ہیں وہ بتاؤ اس کے بعد معلوم کرنا چاہئے کہ حدیث شریف میں ہے : کُنْتُ نَبِیًّا وَّ اٰدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ یعنی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں اس حالت میں نبی تھا کہ جب حضرت آدم روح اور جسم کے درمیان تھے۔ اس حدیث کو طبرانی نے ابن عباس ؓ سے اور ابو نعیم نے حلیہ میں اور ابن سعد نے ابو الجدعاء سے روایت کیا ہے اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ کو جو علوم اور کمال نبوۃ حضور کو عطا فرمانے منظور تھے اور وہ تجلیات ذاتیہ جو انبیاء کے ساتھ مخصوص ہیں سب کی سب اسی وقت عطا فرما دی تھیں۔ جبکہ حضرت آدم مابین روح و جسد تھے یعنی روح جسد کے ساتھ مرکب ہوچکی تھی کیونکہ جو کلیات خالصہ ہیں وہ اس جسد خاکی کے ساتھ مشروط تھیں تو جب حضرت آدم کا جسد بن گیا اور ان کی ذریت کی روحیں ان کی پشت میں جاگزیں ہوگئیں تو وہ سب تجلیات ذاتیہ کے قبول کرنے کے لائق ہوگئے۔ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ( اگر تم سچے ہو) یعنی اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ جو ہم مخلوق پیدا کریں گے اس سے تم ہی افضل ہو (جیسا کہ تمہارا خیال ہے) تو ان کے نام بتاؤ قنبل اور ورش نے ھٰؤُ لَآءِِ إِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ میں ہمزہ ثانیہ کو یائے ساکنہ سے بدل کر پڑھا ہے اور قالون بزی ہمزہ اولیٰ کو یاء مکسور سے بدلتے ہیں اور ابو عمرو ہمزہ ثانیہ کو ساقط کرکے پڑھتے ہیں۔ باقی قراء دونوں حمزہ کو ثابت رکھتے ہیں اور جہاں کہیں دو ہمزہ مکسور دو کلموں میں جمع ہوجائیں وہاں بھی یہی اختلاف ہے ورش سے ایک یہ روایت ہے کہ ھٰوءُ لَآء میں ہمزہ ثانیہ کو خاص اس جگہ اور سورة نور میں عَلَی الْبِغَاءِ اِنْ اَرَوْنَ تُحَصُّنًاکی ہمزہ کو یاء مک سورة سے بدلتے ہیں اور ان دو مقام کے سوا وہ قنبل کے موافق ہیں اور جب دو ہمزہ مفتوح دو کلموں میں جمع ہوجائیں جیسے جَآءَ اَجَلُھُمْ تو ورش اور قنبل ہمزہ ثانیہ کو مدہ کرلیتے ہیں جیسا کہ وہ مک سورة کو بھی مدہ کرتے ہیں اور قالون بزی اور ابو عمرو ہمزہ اولیٰ کو ساقط کردیتے ہیں۔ باقی قراء دونوں ہمزہ کی تحقیق کرتے ہیں یعنی کسی کو حذف یا بدل نہیں کرتے اور جب دو ہمزہ مضموم دو کلموں میں جمع ہوں اور یہ اجتماع صرف ایک جگہ سورة احقاف میں ہوا ہے : اَوْلِیَآءُ اُوْلٰءِکَ تو اس ہمزہ کا حکم مثل مک سورة کے ہے اور ورش اور قنبل دوسری ہمزہ کو واؤ ساکن سے اور قالون بزی ہمزہ اول کو واو مضموم سے بدلتے ہیں اور ابو عمر و حمزہ اولیٰ کو ساقط کردیتے ہیں باقی قراء دونوں کو ثابت رکھتے ہیں۔
Top