Tadabbur-e-Quran - An-Noor : 9
وَ اِذَا رَاٰكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًا١ؕ اَهٰذَا الَّذِیْ یَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ١ۚ وَ هُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ هُمْ كٰفِرُوْنَ
وَاِذَا : اور جب رَاٰكَ : تمہیں دیکھتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : وہ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ : نہیں يَّتَّخِذُوْنَكَ : ٹھہراتے تمہیں اِلَّا : مگر۔ صرف هُزُوًا : ایک ہنسی مذاق اَھٰذَا : کیا یہ ہے الَّذِيْ : وہ جو يَذْكُرُ : یاد کرتا ہے اٰلِهَتَكُمْ : تمہارے معبود وَهُمْ : اور وہ بِذِكْرِ : ذکر سے الرَّحْمٰنِ : رحمن (اللہ) هُمْ : وہ كٰفِرُوْنَ : منکر (جمع)
اور جب کافر تم کو دیکھتے ہیں تو تم سے استہزاء کرتے ہیں کہ کیا یہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر (برائی سے) کیا کرتا ہے حالانکہ وہ خود رحمٰن کے نام سے منکر ہیں
ونبلوکم بالشر والخیر فتنۃ والینا ترجعون۔ اور ہم تم کو بری بھلی حالتوں سے اچھی طرح آزماتے ہیں پھر اس زندگی کے بعد تم سب ہمارے پاس واپس چلے آؤ گے۔ نَبْلُوْکُمْیعنی ہم تمہارے ساتھ ویسا عمل کریں گے جیسا امتحان لینے والا کرتا ہے (اللہ کو سب کچھ معلوم ہے اس لئے اصل کیفیت دریافت کرنے اور واقف ہونے کے لئے وہ ہماری جانچ نہیں کرتا پس بلا یعنی امتحان کی نسبت اس کی طرف حقیقی بلکہ محض مجازی اور ظاہری ہے وہ بندوں کے ساتھ معاملہ ایسا کرتا ہے جیسا ممتحن ان لوگوں کے ساتھ کرتا ہو جن کا وہ امتحان لیتا ہے) ۔ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِیعنی برائی ‘ بھلائی ‘ سختی ‘ نرمی ‘ صحت ‘ بیماری ‘ دولت ‘ افلاس اور ہر ناگوار و گوارا چیز سے ہم تمہاری جانچ کرتے ہیں تاکہ یہ بات ظاہر ہوجائے کہ تم مرغوب و محبوب مقصد کو حاصل کر کے شکر کرتے ہو یا ناشکری اور دکھ پر صبر کرتے ہو یا شکوہ و شکایت اور بےصبری۔ وَاِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ اور ہماری ہی طرف تم کو لوٹا کر لایا جائے گا ‘ پس ہم ہی تم کو صبر و بےصبری اور شکر و ناشکری کی جزا و سزا دیں گے۔ اس آیت میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ پیدا کرنے کی اصل غرض جانچ کرنا اور عذاب وثواب دینا ہے اس جملہ میں آیت نبلوکم کے مضمون کی تائید ہے۔ ابن حاتم نے بروایت سدی بیان کیا کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ ابوجہل اور ابو سفیان کی طرف سے گزرے حضور کو دیکھ کر ابوجہل ہنسنے لگا اور ابو سفیان سے بولا یہ ہے بنی عبدمناف کا نبی ابو سفیان کو اس بات سے غصہ آگیا اور کہنے لگا بنی عبد مناف میں پیغمبر ہونا تم کو کیوں ناگوار ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ گفتگو سن لی اور پلٹ کر ابو جہل کو ڈرایا اور فرمایا میرا خیال ہے کہ تو اس وقت تک باز نہیں آئے گا۔ جب تجھ پر وہ مصیبت نہ آپڑے جو تیرے چچا پر پڑی تھی اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔ واذا راک الذین کفروا ان یتخذونک الا ہزوا اہذا الذی یذکر الہتکم اور کافر لوگ جب آپ کو دیکھتے ہیں تو بس آپ کی ہنسی اڑاتے ہیں اور (آپس میں کہتے ہیں) کیا یہی ہے جو تمہارے معبودوں کا (برائی کے ساتھ) ذکر کرتا ہے۔ ہُزُوًامسخرہ یعنی وہ شخص جس سے مسخرہ پن کیا جائے۔ اَہٰذَا الَّذِیْ یَذْکُرْ اٰلِہَتَکُمْ یہ پہلے فقرے کی تاکید ہے یعنی کیا یہ ہی وہ شخص ہے جو تمہارے معبودوں کو برا کہتا ہے اور ان کا ذکر برائی کے ساتھ کرتا ہے (برائی کے ساتھ) کا لفظ گو مذکور نہیں مگر مراد ہے دشمن کا ذکر کرنا ‘ برائی کے ہی ساتھ ہوتا ہے اور دوست کا ذکر اچھائی کے ساتھ۔ فُلاَنٌ یَذْکُرُ فُلاَناً فلاں شخص اس آدمی کی برائی کر رہا تھا۔ فُلاَنٌ یَذْکُرُ اللّٰہَفلاں شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے ‘ یعنی اللہ کی اچھی صفات بیان کرتا ہے۔ یہ دونوں محاورے ہیں۔ وہم بذکر الرحمن ہم کفرون۔ اور خود یہ لوگ رحمن کے ذکر کا انکار کیا کرتے ہیں۔ رحمن کے ذکر کے منکر ہیں۔ یعنی اللہ کی توحید و تعظیم کے منکر ہیں یا اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ اللہ نے مخلوق کی ہدایت کے لئے پیغمبروں کو بھیجا اور اپنی کتابیں نازل فرمائیں ‘ یا قرآن کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ رحمن یمامہ یعنی مسیلمہ کے علاوہ ہم اور کسی کو نہیں جانتے پس ایسے لوگ اس امر کے زیادہ مستحق ہیں کہ ان سے استہزاء کی جائے اور ان کو مسخرہ بنایا جائے۔ ہم کی تکرار تاکید اور تخصیص کے لئے ہے یا اس لئے ہے کہ اوّل ہُمْ (مبتدا) اور کافِرُوْنَ (خبر) کے درمیان بذکر الرحمن کے لفظ سے فصل ہوگیا ہے۔
Top