Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Anbiyaa : 36
وَ اِذَا رَاٰكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًا١ؕ اَهٰذَا الَّذِیْ یَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ١ۚ وَ هُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ هُمْ كٰفِرُوْنَ
وَاِذَا : اور جب رَاٰكَ : تمہیں دیکھتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : وہ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ : نہیں يَّتَّخِذُوْنَكَ : ٹھہراتے تمہیں اِلَّا : مگر۔ صرف هُزُوًا : ایک ہنسی مذاق اَھٰذَا : کیا یہ ہے الَّذِيْ : وہ جو يَذْكُرُ : یاد کرتا ہے اٰلِهَتَكُمْ : تمہارے معبود وَهُمْ : اور وہ بِذِكْرِ : ذکر سے الرَّحْمٰنِ : رحمن (اللہ) هُمْ : وہ كٰفِرُوْنَ : منکر (جمع)
اور جب کافر تم کو دیکھتے ہیں تو تم سے استہزاء کرتے ہیں کہ کیا یہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر (برائی سے) کیا کرتا ہے ؟ حالانکہ وہ خود رحمن کے نام سے منکر ہیں
(36) اور اے محمد ﷺ ابوجہل اور اس کے ساتھی جب آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ سے اپنی گفتگو میں مذاق کرنے لگتے ہیں اور آپس میں کہتے ہیں کیا یہی صاحب ہیں جو تمہارے بتوں کا برائی سے ذکر کرتے ہیں حالانکہ یہ خود اللہ تعالیٰ کے ذکر پر انکار اور کفر کیا کرتے ہیں اور بدبخت کہا کرتے ہیں کہ ہم اللہ کو نہیں جانتے مسیلمہ کذاب جانتا ہے۔ شان نزول : (آیت) ”واذا ارک الذین کفروا“۔ (الخ) اور ابن ابی حاتم ؒ نے سدی سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کا ابوجہل اور ابوسفیان کے پاس سے گزر ہوا یہ دونوں آپس میں گفتگو کررہے تھے جب ابوجہل نے آپ کو دیکھا تو بدبخت ہنسا اور ابوسفیان سے کہا کہ یہ بنی عبد مناف کے نبی ہیں، یہ سن کر ابوسفیان کو غصہ آیا اور کہا کیا تم اس بات کا انکار کرتے ہو کہ بنی عبد مناف میں کوئی نبی ہو غرض کہ دونوں کی یہ گفتگو رسول اکرم ﷺ نے سنی اور آپ ابوجہل کے پاس لوٹ کر آئے اور اس کو ڈرایا اور فرمایا کہ تو اس وقت تک اپنی باتوں سے باز نہیں آئے گا جب تک کہ تیرے اوپر بھی وہی عذاب نازل نہ ہو جو دوسروں پر ہوا اس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی یعنی یہ کافر لوگ جب آپ کو دیکھتے ہیں تو بس آپ سے مذاق کرنے لگتے ہیں۔
Top