Tafseer-e-Mazhari - Al-Muminoon : 73
وَ اِنَّكَ لَتَدْعُوْهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
وَاِنَّكَ : اور بیشک تم لَتَدْعُوْهُمْ : انہیں بلاتے ہو اِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راہ راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا۔ راستہ
اور تم تو ان کو سیدھے راستے کی طرف بلاتے ہو
وانک لتدعوہم الی صراط مستقیم۔ اور آپ تو ان کو سیدھے راستے کی طرف بلا رہے ہیں یعنی ایسی راہ (زندگی) پر چلنے کی دعوت دے رہے ہیں جس میں کوئی کجی نہیں جس کی استقامت کی شاہد تمام سلیم عقلیں ہیں۔ اللہ نے مذکورۂ بالا آیات میں ان تمام اسباب کی نفی کردی جو دعوت رسول سے انکار کرنے کے موجب بن سکتے تھے۔ راستہ میں کجی نہیں ‘ اس راہ کے مستقیم ہونے کی شاہد ہر عقل سلیم ہے۔ دعوت دینے والے کو کوئی لالچ نہیں ‘ وہ کچھ مال مانگتا نہیں۔ اس دعوت نامے میں ان لوگوں کیلئے شرف بھی ہے جن کو دعوت دی جا رہی ہے ‘ اس لئے انکار دعوت کا سبب سوائے حق سے عداوت رکھنے کے یا دانش کے فقدان کے اور کوئی نہیں اور ازل ہی میں یہ بدبختی ان کے لئے لکھ دی گئی تھی یوں تو وہ بڑے عقلمند تھے دنیاوی منافع حاصل کرنے کی بہت سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔ اس لئے دوامی منافع کے حصول سے محروم رہنا اور ان کو نہ سمجھنا صرف ازلی شقاوت تھی جو مقدر ہوچکی تھی واللّٰہُ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۔ اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے اور راہ مستقیم پر چلنے کی توفیق عنایت فرما دیتا ہے۔
Top