Tadabbur-e-Quran - Al-Muminoon : 73
وَ اِنَّكَ لَتَدْعُوْهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
وَاِنَّكَ : اور بیشک تم لَتَدْعُوْهُمْ : انہیں بلاتے ہو اِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راہ راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا۔ راستہ
اور بیشک تم ان کو ایک سیدھی راہ کی دعوت دے رہے ہو
آیت 74-73 صراط مستقیم سے انحراف کی اصل علت یعنی جہاں تک تمہاری دعوت کا تعلق ہے وہ تو زندگی کی صحیح شاہراہ پر چلنے کی دعوت ہے۔ اسی شاہراہ پر چل کر انسان منزل مقصود کو پہنچ سکتا ہے لیکن اس کو اختیار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔ اگر آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو تو آخر اس کو کیا پڑی ہوئی ہے کہ وہ اپنے نفس کی آزادیوں اور بےقیدگیوں پر پہرہ بٹھائے۔ اپنی نقد لذتوں کی قربانی تو وہی دے سکے گا جس کو ایک روز جزا کا انتظار ہو۔ جس کو اس قسم کے کسی دن کا انتظار نہیں ہے وہ اپنی خواہشوں ہی کے پیچھے چلے گا خواہ ان کی پیروی میں وہ صراط مستقمس سے کتنا ہی دور نکل جائے۔ اس آیت میں آنحضرت ﷺ پر یہ حقیقت واضح فرمائی گی ہے کہ آپ کی بتائی ہوئی راہ سے جو لوگ انحراف اختیار کئے ہوئے ہیں اس کا سبب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس میں کوئی پیچ و خم ہے، یہ تو بالکل سیدھی راہ ہے، خوابی جو کچھ ہے ان کے دلوں میں ہے۔ ان لوگوں کے دلوں میں آخرت پر ایمان نہیں ہے اور جن کے اندر آخرت پر ایمان نہ ہو وہ اس سیدھی راہ سے کج ہو کر ہی چلیں گے۔ حکمت دین کی اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین رکھیے کہ جب تک اس دنا کے ساتھ آخرت کو نہ مانئے نہ اس اونٹ کی کوئی کل سیدھی نظر آئے گی اور نہ زندگی کی صحیح شاہراہ معین ہو سکے گی۔ اس حقیقت کو ہم جگہ جگہ واضح کرتے آ رہے ہیں۔
Top