Tafseer-e-Mazhari - Ash-Shu'araa : 22
وَ تِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
وَتِلْكَ : اور یہ نِعْمَةٌ : کوئی نعمت تَمُنُّهَا عَلَيَّ : تو اس کا احسان رکھتا ہے مجھ پر اَنْ عَبَّدْتَّ : کہ تونے غلام بنایا بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل
اور (کیا) یہی احسان ہے جو آپ مجھ پر رکھتے ہیں کہ آپ نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے
وتلک نعمۃ تمنہا علی ان عبدت بنی اسرآء یل اور یہ کوئی نعمت ہے جس کا تو مجھ پر احسان رکھ رہا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا۔ تلک سے اشارہ تربیت کی طرف ہے یا بری خصلت کی طرف اشارہ ہے۔ عَبَّدْتَّسے تو نے غلام بنا رکھا۔ اَعْبَدْتُ اِسْتَعْبَدْتُاور تعبَّدْتُ (یعنی تفعیل افعال استفعال اور تفعل سب ہم معنی ہیں) مفسرین نے اس آیت کا مطلب مختلف طور پر لکھا ہے۔ (1) حضرت موسیٰ کی طرف سے یہ اقرار احسان ہے کہ تو نے مجھے زندہ چھوڑ دیا اور پالا اور دوسرے اسرائیلی بچوں کی طرح قتل نہیں کرایا۔ گویا حضرت موسیٰ نے فرمایا بیشک یہ تیرا احسان ہے جو تو مجھے جتلا رہا ہے کہ بنی اسرائیل کو تو نے غلام بنائے رکھا اور مجھے چھوڑ دیا غلام نہیں بنایا۔ (2) بظاہر یہ اقرار نعمت ہے اور حقیقت میں انکار ہے ‘ حضرت موسیٰ نے اوّل فرعون کی تردید و توبیخ کی اور پھر اس نعمت تربیت کی طرف کلام کا رخ کیا جس کا فرعون نے ذکر کیا تھا لیکن اس کا صراحۃً انکار نہیں کیا۔ کیونکہ فرعون نے واقع میں پالا ہی تھا بلکہ اس بات پر تنبیہ کی کہ یہ نعمت حقیقت میں احسان نہ تھی لیکن ظلم کے مقابلے میں یا ظلم کے نتیجہ میں یہ نعمت تھی مجھ پر تیرا احسان نتیجہ تھا اس بات کو کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا ان کے لڑکوں کو تو قتل کراتا تھا اسی وجہ سے میں تیرے ہاتھ لگا اور تیرے پاس مجھے پہنچا دیا گیا اور تو نے میری پرورش و کفالت کی۔ اگر تو بنی اسرائیل کو حد سے زیادہ ذلیل نہ کرتا اور ان کے لڑکوں کو قتل نہ کراتا تو میرے گھر والے میری پرورش کرتے اور دریا میں مجھے نہ پھینکتے اور میں تیرے مکان میں نہ لایا جاتا۔ (3) یہ استفہام انکاری ہے ہمزۂ استفہام محذوف ہے یعنی یہ احسان جس کا تو نے ذکر کیا ہے کیا کوئی احسان ہے جبکہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھکا ہے۔ بنی اسرائیل کو غلام بنائے رکھنے کی صورت میں یہ تربیت کوئی احسان نہیں۔ میری قوم کو تو نے غلام بنائے رکھا اور میری تربیت کی یہ کوئی احسان ہوا۔ جب فرعون نے حضرت موسیٰ کے طنز کو سن لیا اور یہ بھی دیکھ لیا کہ موسیٰ اپنی دعوت پر اڑے ہوئے ہیں تو دعوت پر ہی اعتراض کرنے لگا اور سب سے پہلے بھیجنے والے رب کی حقیقت دریافت کی۔
Top