Anwar-ul-Bayan - Ash-Shu'araa : 22
وَ تِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
وَتِلْكَ : اور یہ نِعْمَةٌ : کوئی نعمت تَمُنُّهَا عَلَيَّ : تو اس کا احسان رکھتا ہے مجھ پر اَنْ عَبَّدْتَّ : کہ تونے غلام بنایا بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل
اور (کیا) یہی احسان ہے جو آپ مجھ پر رکھتے ہیں کہ آپ نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے ؟
ّ (26:22) تمنھا : من یمن منا (نصر) سے صیغہ واحد مذکر حاضر ہے علی کے صلہ کے ساتھ اس کے معنی ہیں کسی کو کوئی احسان جتلانا ھا ضمیر واحد مؤنث غائب نعمۃ کی طرف راجع ہے۔ ان بمعنی لان ہے ۔ ای انما صارت نعمۃ علی لان عبدت بنی اسرائیل لولم تفعل ذلک لکفلنی اہلی ولم یلقونی فی الیم یہ جو احسان تم مجھے جتلاتے ہو یہ سبب اس امر کے ہیں کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے اگر تو ایسا نہ کرتا تو میرے اہل خانہ میری کفالت خود کرتے اور مجھے دریا میں نہ ڈالتے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ جو تو مجھ پر احسان جتلا رہا ہے یہ سب بوجہ تمہارے بنی اسرائیل کو غلامی کی سخت بندھنوں میں جکڑنے اور ان پر مظالم ڈھانے کے ہے اگر تو اسرائیل کے معصوم بچوں کو قتل کرنے کا سفاکانہ قانون نافذ کرتا تو میری ماں مجھے دریا میں کیوں ڈالتی اور مجھے تیرے گھر میں پرورش پانے کی ضرورت کہاں آتی اور پھر تیرے اس بزعم خود احسان کا کیا موقع تھا۔ فائدہ : پچھلی آیت میں ففررت منکم اور لما خفتکم میں جمع مذکر حاضر کا صیغہ استعمال ہوا ہے کیونکہ فرار اور خوف صرف فرعون ہی سے نہ تھا بلکہ اس سے اور اس کے سرداروں سے تھا جس کے متعلق خبر دینے والے نے بتایا تھا قال یموسی ان الملا یاتمرون بل لیقتلون 280:20) اس نے بتایا اے موسیٰ سردار لوگ سازش کر رہے ہیں آپ کے بارے میں کہ آپ کو قتل کر ڈالیں۔ آیت 22 میں تمنھا اور عبدت کا عمل فرعون کی ذات سے مختص ہے اس لئے یہاں واحد مذکر حاضر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔
Top