Tafseer-e-Mazhari - An-Naml : 43
قَالَ نَكِّرُوْا لَهَا عَرْشَهَا نَنْظُرْ اَتَهْتَدِیْۤ اَمْ تَكُوْنُ مِنَ الَّذِیْنَ لَا یَهْتَدُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا نَكِّرُوْا : وضع بدل دو لَهَا : اس کے لیے عَرْشَهَا : اس کا تخت نَنْظُرْ : ہم دیکھیں اَتَهْتَدِيْٓ : آیا وہ راہ پاتی (سمجھ جاتی) ہے اَمْ تَكُوْنُ : یا ہوتی ہے مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ لَا يَهْتَدُوْنَ : راہ نہیں پاتے (نہیں سمجھتے)
سلیمان نے کہا کہ ملکہ کے (امتحان عقل کے) لئے اس کے تخت کی صورت بدل دو۔ دیکھیں کہ وہ سوجھ رکھتی ہے یا ان لوگوں میں ہے جو سوجھ نہیں رکھتے
قال نکروالھا عرشھا ننظر اتھتدی ام تکون من الذین لا تھتدون . سلیمان نے (بلقیس کی سمجھ کو جانچنے کے لئے) حکم دیا : اس کے لئے اس کے تخت کی صورت بدل دو ۔ ہم دیکھیں گے اس کو صحیح پتہ لگتا ہے یا اس کا شمار انہی لوگوں میں ہے جو (ایسی باتوں کا) پتہ نہیں لگا سکتے۔ نَکِّرُوْا یعنی تخت کو ایسا کر دو کہ وہ پہچان نہ سکے۔ (اس کو اپنا نہیں کوئی غیر تخت محوس ہو۔ مترجم) روایت میں آیا ہے کہ حسب الحکم تخت کے نچلے حصہ کو بالائی اور بالائی حصہ کو نچلا کردیا گیا اور سرخ جواہر کی جگہ سبز جواہر جڑ دئیے گئے اور سبز کی جگہ سرخ۔ اَتَھْتَدِیْ کیا وہ اپنے تخت کو شناخت کرنے کی راہ پالے گی (کسی طریقہ سے شناخت کرسکے گی) سلیمان ( علیہ السلام) نے ایسا کیوں کیا ‘ اس کے متعلق وہب بن منبہ اور کعب وغیرہ کا بیان ہے کہ شیاطین کو یہ اندیشہ تھا کہ سلیمان ( علیہ السلام) بلقیس سے عقد نہ کرلیں۔ اگر ایسا کرلیا تو جنات کے سارے راز وہ سلیمان ( علیہ السلام) سے کہہ دے گی کیونکہ اس کی ماں پری تھی۔ وہ جنات کی خفیہ باتوں سے واقف تھی پھر اگر کوئی اولاد ہوگئی تو سلیمان ( علیہ السلام) کے بعد اس کے زیر حکم رہنا پڑے گا اور یہ نسل سلیمان ( علیہ السلام) کی غلامی کبھی دور نہ ہوگی اس لئے حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کو نفرت دلانے کے لئے شیاطین نے حضرت سلیمان ( علیہ السلام) سے بلقیس کی مذمت کی اور کہا : اس کی عقل میں کچھ کمزوری ہے ‘ اس کے دونوں قدم گدھے کے سم کی طرح ہیں ‘ اس کی پنڈلیوں پر بال ہیں۔ اسی اطلاع کی بنیاد پر حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے تخت کی صورت بدل ڈالنے کا حکم دیا تاکہ بلقیس کی عقل کی جانچ ہوجائے اور پنڈلیاں دیکھنے کے لئے ایک شیشہ گھر بنانے کا حکم دیا۔
Top